سعودی عرب میں خلیجی ممالک کی سمٹ پر علاقائی بحرانوں کے سائے
9 دسمبر 2018سعودی دارالحکومت ریاض سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ سربراہی کانفرنس دراصل خلیج کی چھ عرب ریاستوں پر مشتمل خلیجی تعاون کونسل یا جی سی سی کی سمٹ ہے، جس کے لیے سعودی حکومت کی طرف سے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کو بھی دعوت دی گئی ہے۔
ریاض کی طرف سے شیخ تمیم بن حمد الثانی کو اس سمٹ میں شرکت کی دعوت دینا اس لیے بھی اہم ہے کہ سعودی عرب اور جی سی سی کی رکن اس کی دو اہم اتحادی ریاستوں بحرین اور متحدہ عرب امارات نے گزشتہ برس قطر کے ساتھ اپنے سفارتی روابط منقطع کر دیے تھے۔
سب سے بڑا علاقائی سیاسی تنازعہ
یہ واضح نہیں کہ آیا قطر کے امیر جی سی سی کے اس سالانہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔ جہاں تک خلیجی تعاون کونسل کے رکن باقی دو ممالک کویت اور عمان کا تعلق ہے، تو وہ اب تک قطر کے ساتھ اس سفارتی تنازعے میں غیر جانبدار ہی رہے ہیں، جو تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی عرب ریاستوں کا آج تک کا سب سے بڑا علاقائی سیاسی تنازعہ بن چکا ہے۔
سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر کے ساتھ اپنے ہر قسم کے رابطے یہ الزام لگا کر منقطع کیے تھے کہ دوحہ حکومت مبینہ طور پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کے علاوہ ایران کے ساتھ قریبی روابط کو بھی فروغ دے رہی تھی، جو خطے میں سعودی عرب کا سب سے بڑا حریف ملک ہے۔ دوسری طرف قطر اپنے خلاف ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ اسی مہینے دوحہ نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ وہ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کی رکنیت سے دستبردار ہو رہا ہے۔ اوپیک پر سعودی عرب کو کافی حد تک غلبہ حاصل ہے، جو کہ دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
’تمام پل جلا دیے گئے‘
قطر کی طرف سے اس کے اوپیک سے اخراج کے اعلان پر بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد الخلیفہ نے ریاض میں آج کی سربراہی کانفرنس شروع ہونے سے کچھ پہلے یہ تبصرہ کیا تھا، ’’قطر نے وہ تمام پل جلا دیے ہیں، جن پر چلتے ہوئے وہ خلیجی تعاون کونسل میں اپنا مقام حاصل کر سکتا تھا۔‘‘
خلیجی تعاون کونسل کا قیام 1981ء میں عمل میں آیا تھا، جب ایران اور عراق کی جنگ اپنے عروج پر تھی اور ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کو ابھی صرف دو برس ہی ہوئے تھے۔ تب سنی مسلم حکمرانوں والی ان عرب ریاستوں کو، جن میں مقامی سطح پر شیعہ مسلم آبادی کا تناسب بھی اچھا خاصا ہے، خاص طور پر بحرین میں، یہ خدشات لاحق ہو گئے تھے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے خود ان کے اپنے ہاں بھی اثرات دیکھنے میں آ سکتے تھے۔
یمن کی جنگ
اتوار نو دسمبر کے روز ریاض میں اس خلیجی سمٹ پر یمن کی جنگ کے گہرے سایوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یمنی جنگ کے فریقین میں سے حوثی شیعہ باغیوں کو ایرن کی حمایت حاصل ہے جبکہ یہ باغی جس حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں، اس کی حمایت سعودی عرب کرتا ہے۔ اسی لیے سعودی عرب نے حوثی باغیوں کے خلاف اپنی قیادت میں ایک عسکری اتحاد بھی قائم کر رکھا ہے، جو پچھلے سال سے یمن میں باغیوں کے ٹھکانوں پر زمینی اور فضائی حملے بھی کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ یہ سمٹ ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے، جب اقوام متحدہ کی ثالثی کوششوں کے نتیجے میں سویڈن میں پہلی بار حوثی باغیوں اور یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے نمائندوں کے مابین امن بات چیت بھی ہو رہی ہے۔ حوثی باغیوں نے 2014ء میں یمنی دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر کے تب تک وہاں برسراقتدار حکومت کو وہاں سے نکال دیا تھا۔ اب یمن کی یہ حکومت جنوبی بندرگاہی شہر عدن میں قائم ہے۔
دس ہزار انسانی ہلاکتیں
یمن کی خانہ جنگی کے 2014ء میں شدید ہو جانے کے بعد سعودی قیادت میں جو عسکری اتحاد قائم ہوا تھا، اس نے 2015ء میں اس تنازعے میں مسلح مداخلت شروع کر دی تھی۔ تب سے اب تک یہ جنگ قریب 10 ہزار انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن چکی ہے، لاکھوں یمنی باشندے بے گھر ہو چکے ہیں اور اس ملک کی نصف سے زائد آبادی کو خوراک کی دستیابی کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے مطابق یمن کی جنگ میں اب تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد 10 ہزار نہیں بلکہ یہ تعداد اس سے پانچ گنا زیادہ تک ہو سکتی ہے۔ دریں اثناء اقوام متحدہ کے مطابق یمن کا تنازعہ دنیا کا سب بدترین انسانی بحران بن چکا ہے، جہاں اس وقت ڈیڑھ کروڑ سے زائد انسانوں کو خوراک کی دستیابی کے سلسلے میں شدید مسائل کا سامنا ہے اور عنقریب یہ تعداد مزید اضافے کے بعد دو کروڑ یا یمن کی کل آبادی کے 67 فیصد تک پہنچ جائے گی۔
جمال خاشقجی کا قتل
جی سی سی کی اس سمٹ پر جس تیسرے بحران کے گہرے سائے موجود ہیں، وہ ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کا اکتوبر کے اوائل میں کیا جانے والا وہ قتل ہے، جس کا الزام ترک تفتیشی ماہرین کی طرف سے سعودی عرب کی اعلیٰ قیادت پر لگایا جاتا ہے۔
اس کے برعکس سعودی حکمران یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ خاشقجی کو انتہائی بے دردی سے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اقدام سعودی سکیورٹی اہلکاروں کا ذاتی فعل اور ایک ’سنگین غلطی‘ تھا، جس کا سعودی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ ریاض حکومت کی طرف سے ان دعووں کی بھی تردید کی جاتی ہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اور ریاض میں ملکی حکمرانوں کے ناقد جمال خاشقجی کے قتل کا حکم مبینہ طور پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دیا تھا۔
م م / ع ت / اے ایف پی