سعودی عرب میں فلسطینی شاعر کو اسلام چھوڑنے پر لمبی سزا
3 فروری 2016فلسطینی شاعر اشرف فیاض کو سعودی عرب کی مذہبی پولیس نے سن 2013ء میں ملک کے جنوب مغربی علاقے آبھا سے حراست میں لیا تھا اور ان پر سن 2014ء میں مقدمے کا آغاز ہوا تھا۔
بدھ کے روز فیاض کے وکیل عبدالرحمان الاہیم نے ایک ٹوئٹر پیغام میں اس نئے عدالتی فیصلے کے حوالے سے لکھا، ’’عدالت نے سزائے موت کا اپنا سابقہ فیصلہ تبدیل کر دیا ہے۔‘‘
اپنے پیغام میں انہوں نے فیاض پر عائد کیے گئے ارتداد کے الزامات کی تصدیق بھی کی، جس کی بنا پر عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ دیا۔ ’’میرے موکل کو آٹھ برس قید اور پچاس پچاس کی قسطوں میں آٹھ سو کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئی ہے۔‘‘
سعودی وزارت انصاف کے ایک ترجمان نے اس خبر پر فوری طور پر تبصرے سے انکار کیا ہے۔
فیاض پر یہ جرم ان شواہد کی بنیاد پر سامنے آیا، جس میں استغاثہ نے عینی شاہدین عدالت میں پیش کیے تھے، جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے فیاض کو ’خدا، پیغمبر اسلام اور سعودی عرب کو برا بھلا‘ کہتے سنا۔ اس کے علاوہ ان کی پرانی شاعری کے اقتباسات بھی عدالت میں پیش کیے گئے۔
اس سے قبل ذیلی عدالت نے انہیں اس جرم میں چار برس قید اور آٹھ سو کوڑوں کی سزا سنائی تھی، جس کے بعد یہ مقدمہ سعودی اپیل کورٹ میں چلا گیا، جہاں گزشتہ برس نومبر میں عدالت نے انہیں سزائے موت دے دی، جس کے بعد انہوں نے اعلیٰ عدالت میں سزا کے خلاف اپیل جمع کرائی۔
دوبارہ مقدمہ سننے پر عدالت نے استغاثہ کی جانب سے پیش کردہ گواہان کے بیانات کی صحت پر شبے کا اظہار کیا تھا۔
سعودی عرب میں عدالتی نظام شرعی قوانین پر مبنی ہے، جہاں وہابی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے سخت ترین نظریات کے حامل مذہبی رہنما بطور جج کام کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں مذہبی جرائم مثلاﹰ توہین مذہب یا ارتداد کی مد میں موت تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔