سعودی عرب میں پَے درپَے حملے: داعش کے خلاف جنگ واحد متبادل
7 جولائی 2016اگرچہ ابھی تک کسی نے بھی اُن ہنگامہ خیز دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جنہوں نے ماہِ رمضان کے آخر میں سعودی عرب کو ہلا کر رکھ دیا تھا تاہم یہ بات بڑی حد تک یقینی ہے کہ ان وحشیانہ حملوں کے پیچھے اُسی دہشت گرد ملیشیا کا ہاتھ ہے، جو اب عالمی سطح پر بھی سرگرمِ عمل ہے، ہر اعتبار سے ان حملوں میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) ملوث نظر آتی ہے۔
آئی ایس کے خلاف جاری بین الاقوامی اتحاد کی جنگ میں سعودی حکومت کے زیادہ سرگرم شرکت کے فیصلے کے بعد تو یہ بات واضح طور پر نظر آنے لگی تھی کہ دہشت گرد مسلمانوں کے لیے مرکزی اہمیت کی حامل اس سرزمین پر ضرور ہی حملے کریں گے۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ تقریباً تین ہزار سعودی شہری شام اور عراق جا کر آئی ایس میں شامل ہوئے۔ ان میں سے اندازاً ایک تہائی سعودی شہری واپس سعودی عرب پہنچ چکے ہیں، گویا آئی ایس کے پاس بوقتِ ضرورت پُر تشدد کارروائیاں کرنے کے لیے عسکریت پسندوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
اگرچہ سعودی عرب پہلے بھی دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنتا رہا ہے لیکن تازہ حملے کہیں زیادہ سنگین نوعیت کے ہیں۔ جدہ، قطیف اور مدینہ میں حملے کرتے ہوئے دہشت گردوں نے اس ملک کے انتہائی مرکزی اہمیت والے مقامات کا انتخاب کیا۔
’اسلامک اسٹیٹ‘ (آئی ایس) نے کبھی بھی یہ بات راز میں نہیں رکھی کہ وہ سعودی عرب میں افراتفری پھیلا کر مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتی ہے۔
اگرچہ سعودی حکومت مختلف پروگراموں کے تحت واپس آنے والے نام نہاد ’جہادیوں‘ کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے تاہم یہ اقدامات کافی نہیں ہیں۔ ریاض حکومت کو داعش کی طرف سے درپیش خطرے کا مؤثر طور پر مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی اور معاشرتی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کروانا ہوں گی۔
خواہ باہر کی دنیا سعودی عرب کے مقتدر طبقے اور ایک ایسے ملک کے لیے کوئی ہمدردی نہ ہی رکھتی ہو، جہاں قرونِ وُسطیٰ کے دور کی سزائیں آج بھی ایک معمول ہیں لیکن ان خدائی فوجداروں کے خلاف جنگ میں سعودی قیادت کی کامیابی کی خواہش کرنے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ سعودی قیادت کی ناکامی کا مطلب ہو گا، سعودی ریاست کی شکست و ریخت اور اس ڈراؤنے خواب کے سچ ہونے کی صورت میں پورے مشرقِ وُسطیٰ کو ہی نہیں بلکہ یورپ کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔