سعودی فلم ’وجدہ‘ بھی آسکر کی دوڑ میں
16 ستمبر 2013اس فلم میں ایک نو عمر لڑکی وجدہ کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو قدامت پسند سعودی معاشرے میں، جہاں خواتین کے ڈرائیونگ کرنے پر پابندی ہے، اپنی ذاتی بائیسکل کی مالکہ بننا چاہتی ہے:’’کیا تم نے واقعی یہ سمجھا تھا کہ مجھے پکڑ لو گی؟ اگر میرے پاس ایک سائیکل ہوتی تو پھر مَیں تجھے دکھاتی۔‘‘ اپنی ذاتی بائیسکل اس دَس سالہ لڑکی کا ایک خواب ہوتا ہے اور وہ لاکھ سمجھانے کے باوجود اپنے مطالبے پر جمی رہتی ہے۔ اس حوالے سے فلم کا ایک منظر کچھ اس طرح سے ہے:
وجدہ: ’’ماں، مَیں نے بچت کرتے ہوئے اب تک بائیسکل کے لیے 87 ریال جمع کر لیے ہیں، اب مجھے مزید 713 ریال کی ضرورت ہے، کیا تم مجھے یہ اُدھار دو گی۔‘‘
ماں: ’’کیا تم یہ بات چھوڑ نہیں سکتیں، اب تو مَیں تنگ آ گئی ہوں۔‘‘
سعودی عریبین سوسائٹی فار کلچر اینڈ آرٹ کے سربراہ سلطان البازی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا:’’سعودی عرب سے پہلی فلم کے طور پر ’وجدہ‘ آسکرز میں سعودی عرب کی نمائندگی کرے گی اور بہترین غیر ملکی فلم کے شعبے میں مقابلہ کرے گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’یہ فیصلہ بہت سے بین الاقوامی فلمی میلوں میں اس فلم اور اس کی ہدایتکارہ کو ملنے والی کامیابیوں کی روشنی میں کیا گیا ہے‘۔
سعودی عرب کی پہلی خاتون فلم ہدایتکارہ حیفہ المنصور کی مکمل طور پر سعودی عرب میں شُوٹ کی گئی اس فلم نے گزشتہ برس دبئی فلمی میلے میں بہترین عربی فیچر فلم کا ایوارڈ جیتا تھا جبکہ اس سال مارچ میں فرانسیسی کن میلے میں بھی ایک اعزاز اس فلم کے حصے میں آیا تھا۔
اس فلم کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والوں میں بہت سی سعودی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ جرمن دارالحکومت برلن کی کمپنی Razor بھی شامل ہے۔ اس کمپنی کے فلمساز گیرہارڈ مائکسنر اور رومان پاؤل مشرقِ وُسطیٰ اور عرب دنیا کے ماہر سمجھے جاتےہیں اور اس سے پہلے انعام یافتہ فلمیں ’پیراڈائز ناؤ‘ (ہدایتکار حانی ابو اسد) اور ’والٹز وِد بشیر‘ (ہدایتکار آری فولمان) بنا چکے ہیں۔
ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے جرمن فلمساز رومان پاؤل نے بتایا کہ ہدایتکارہ حیفہ المنصور نے یورپ کی اور بہت سی فلم کمپنیوں کے ساتھ ساتھ اُنہیں بھی ایک ای میل میں اس منصوبے کی پیشکش کی تھی تاہم یہ کہ اس پیشکش میں دلچسپی صرف اُنہی کی کمپنی ’ریزر‘ نے ظاہر کی۔ پاؤل کے مطابق ابتدا میں حیفہ اس فلم کی شوٹنگ متحدہ عرب امارات میں کرنا چاہتی تھیں تاہم اُن کے کہنے پر سعودی حکام سے خصوصی اجازت لی گئی اور اس فلم کی شوٹنگ سعودی دارالحکومت ریاض سمیت اس ملک کے مختلف مقامات پر کی گئی۔
جرمن فلمساز رومان پاؤل کے مطابق باہر سے دیکھنے پر سعودی معاشرہ بہت جامد نظر آتا ہے لیکن اندر سے کافی متحرک اور فعال ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ سعودی سنسر نے اس فلم کی منظوری دے دی ہے، اس کی نمائش دارالحکومت ریاض میں جرمنی اور امریکا کے سفارت خانوں میں بھی کی جا چکی ہے اور اسے سعودی ٹیلی وژن پر بھی دکھایا جائے گا۔
رومان پاؤل کے مطابق سعودی عرب جاتے وقت وہ اس ملک کے حوالے سے کافی خوفزدہ تھے تاہم وہاں جا کر اُنہیں سعودی معاشرے کی ایک بالکل ہی مختلف تصویر دیکھنے کو ملی:’’وہاں کے لوگ بہت ہی خوش مزاج اور خوش اخلاق تھے اور بڑے کھلے انداز میں ہم سے ملے، جس پر ہمیں بہت حیرت بھی ہوئی۔ وہاں بائیں بازو سے لے کر دائیں بازو تک ہر طرح کی سیاسی سوچ موجود ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر کے لوگ ہمیں ملے۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ حیفہ المنصور کی طرح کی خواتین سعودی عرب میں کس طرح کے اثرات مرتب کر سکتی ہیں، رومان پاؤل کا کہنا تھا:’’سعودی عرب ایک قدرے بند معاشرہ ہے۔ جب وہاں اس فلم کی نمائش ہو گی اور حیفہ اپنا کیریئر جاری رکھتی ہے تو اُسے وہاں شہرت ملے گی۔ وہ سعودی عرب کی فنکارانہ صلاحیتیں رکھنے والی شاندار ترین شخصیات میں سے ایک ہے۔‘‘
اس فلم کی کہانی حیفہ المنصور نے خود لکھی ہے اور اس میں اُنہوں نے اپنے بچپن کے تجربات کو سمو دیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ فلم کی شوٹنگ آسان نہیں تھی:’’مجھے ایک بس میں چھُپ کر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے ہدایات دینا پڑتی تھیں لیکن کبھی کبھی مجھ سے برداشت نہیں ہوتا تھا، تب میں بس سے اتر کر اداکاروں کے پاس چلی جاتی تھی۔‘‘
اس فلم کی صورت میں حیفہ المنصور کا بھی ایک بڑا خواب شرمندہء تعبیر ہوا ہے۔ اُنہوں نے اپنا کیریئر آٹھ سال قبل دستاویزی فلموں سے شروع کیا تھا۔ ایک خاتون کے طور پر سعودی عرب میں پہلی فیچر فلم تخلیق کرتے ہوئے اُنہوں نے ایک ایسے معاشرے میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے، جہاں خواتین کو پردے یا کسی محرم کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔