سعودی ولی عہد کا صدر ٹرمپ کے بیان پر محتاط ردِ عمل
6 اکتوبر 2018گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ سعودی حکمران امریکی عسکری امداد کے بغیر دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے، اس لیے ریاض کو امریکا کی جانب سے فراہم کردہ تحفظ کے بدلے میں رقم ادا کرنا چاہیے۔
جمعہ پانچ اکتوبر کی شب بلومبرگ کو دیے گیے اپنے ایک انٹرویو میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صدر ٹرمپ کے اس بیان کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے امریکا اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں کسی ممکنہ دراڑ کو بظاہر کم اہم طریقے سے پیش کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی مضبوط ہیں۔
محمد بن سلمان کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ کوئی بھی دوست اچھی باتیں بھی کہے گا اور بری بھی۔ آپ یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ دوست آپ کے بارے میں ہمیشہ سو فیصد اچھی باتیں ہی کریں گے۔ دوستوں کے مابین غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں تو اس بیان کو ہم اسی درجے میں رکھیں گے۔‘‘
سعودی ولی عہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر اوباما کے دور میں امریکا نے خطے میں سعودی مفادات کے خلاف کام کیا تھا۔ تاہم محمد بن سلمان کے مطابق اب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثر و رسوخ ختم کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب ہی کا انتخاب کیا تھا۔
سعودی عرب دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ صدر ٹرمپ تیل کی زیادہ قیمتوں کے باعث سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایرانی جوہری معاہدے سے نکلنے اور تہران پر مزید پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد دونوں ممالک ایرانی خام تیل کی برآمد روکنے اور اس کے باعث پیدا ہونے والا خلا پُر کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں۔
گزشتہ روز دیے گئے انٹرویو میں سعودی ولی عہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ریاض نے واشنگٹن کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ تہران پر پابندیوں کے بعد خام تیل کی قلت پوری کرنے کے لیے سعودی عرب کردار ادا کرے گا اور اب یہ وعدہ پورا کر دیا گیا ہے۔ سعودی ولی عہد کے مطابق، ’’پابندیوں کے بعد ایران نے تیل کی درآمد میں یومیہ سات لاکھ بیرل کمی کر دی تھی، سعودی عرب اور اوپیک کے رکن ممالک اب یومیہ 1.5 ملین بیرل اضافی تیل فراہم کر رہے ہیں۔ یوں عملی طور پر ہم نے خام تیل کی فراہمی دو گنا کر دی ہے۔‘‘
ش ح / ا ا (روئٹرز، اے پی)