سفارتی بحران کا شکار قطر کی خلیجی ریاست، چند اہم حقائق
5 جون 2017قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔
قطر کا آئین 2005 سے موجود ہے لیکن اس آئین میں سیاسی جماعتوں کے وجود کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس آئین کی ایک شِق کے مطابق ملک کی مشاورتی کونسل کی 45 نشستوں کو عوام کے ووٹ کے ذریعے جیتا جا سکتا ہے۔ لیکن اس آئین پر عمل در آمد نہیں کیا جاتا۔
تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔ قطر دنیا کے سب سے زیادہ فی کس آمدنی رکھنے والے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس خلیجی ملک میں گزشتہ برس سے بجٹ خسارے میں ہے اور یہاں کی معیشت کے بارے میں اندازہ ہے کہ یہ سست روی کا شکار ہو گی۔
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ ملک فاکس ویگن کمپنی میں 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے۔
سن 2022 میں قطر میں فٹ بال میچ کا انعقاد کیا جائے گا جس کے لیے یہ خلیجی ریاست انفراسٹرکچر کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔