سفارتی محاذ پر جنگ، کیا بھارت کامیاب ہو رہا ہے؟
28 ستمبر 2016بھارتی میڈیا کے مطابق ’سرحد پار سے بڑھتے ہوئے حملوں کے باعث‘ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے اور ان کے اس فیصلے کے بعد بنگلہ دیش، افغانستان اور بھوٹان نے بھی پاکستان میں ہونے والی اس علاقائی سربراہی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔
اس حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے بدھ اٹھائیس ستمبر کو ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کے ٹوئٹر پیغامات پڑھے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ بھارت اسلام آباد میں منعقد ہونے والی انیسویں سارک سمٹ میں شرکت نہیں کرے گا۔ لیکن ابھی تک ہمیں بھارت نے اس حوالے سے سرکاری طور پر کوئی اطلاع نہیں دی۔‘‘
نفیس ذکریا نے کہا کہ بھارت کا یہ اعلان افسوس ناک ہے جبکہ پاکستان علاقائی امن و استحکام کے لیے پر عزم ہے اور خطے کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
اسی بارے میں بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اشرف جہانگیر قاضی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’بھارت کا سارک سمٹ میں شرکت سے انکار ایک منفی پیش رفت ہے، جس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں حالیہ بحران کا حل مذاکرات ہی سے نکلے گا لیکن کشمیر کے معاملے پر بات چیت کے بغیر دونوں ریاستوں کے مابین نتیجہ خیز مذاکرات ناممکن ہیں۔
اس موضوع پر سینیئر بھارتی صحافی اوما شنکر سنگھ نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’دونوں ممالک کے مابین روایتی جنگ تو اب نہیں ہو سکتی لہٰذا بھارت نے پاکستان کو سفارتی محاذ پر شکست دینے کا فیصلہ کیا ہے، اقوام متحدہ کی سطح پر پاکستان کا معاملہ اٹھانے کے بعد بھارت نے اب علاقائی فورمز پر بھی پاکستان کو تنہا کرنے کا تہیہ کیا ہے۔‘‘ اوما شنکر سنگھ نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارت کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے حصے کے پانی کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔
جنوبی ایشیائی امور کے بھارتی تجزیہ کار اشوک ملک نے اس حوالے سے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ بھارت کے لیے ایک علامتی فتح ہے، لیکن بھارت کا یہ فیصلہ پاکستان کو چین کے مزید قریب کر سکتا ہے۔‘‘
پاکستانی میڈیا کے مطابق پاکستانی حکام نے اس کانفرنس کو ملتوی کرنے کی تصدیق کر دی ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی ایک بھی رکن ملک تنظیم کی کسی سمٹ میں شرکت نہ کرے، تو سمٹ ملتوی کر دی جاتی ہے۔
اوما شنکر سنگھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جمعرات انتیس ستمبر کے روز بھارتی وزیر اعظم مودی ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کریں گے، جس کا موضوع بھارت کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی ’پسندیدہ ترین ملک‘ کی حیثیت ہو گی۔ نئی دہلی نے پاکستان کو یہ درجہ یک طرفہ طور پر دیا تھا اور کل کے اجلاس میں اس حکومتی فیصلے پر نئے سرے سے غور کیا جائے گا۔