سماعت سے محروم پاکستانی بچوں کے لیے اسکول زندگی ہے!
8 جون 2024پاکستان میں سماعت سے محروم بچوں کے اس اسکول میں طالب علموں کے چہرے روشن ہیں اور ان کی مسکراہٹ شرارتی ہے۔ ان بچوں کے ہاتھ اشاروں کی زبان بولنے والے اپنے اساتذہ کے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ گھوم رہے ہیں۔ ان پرسکون کلاسوں میں خوشی کا اظہار بھی اشاروں میں ہوتا ہے اور یہاں کے زیادہ تر اساتذہ بھی سماعت سے محروم ہیں۔
اٹھارہ سالہ قرت العین نے ایک سال قبل اس اسکول میں داخلہ لیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ''میرے دوست ہیں، میں ان کے ساتھ بات چیت کرتی ہوں، ان کے ساتھ مذاق کرتی ہوں، ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنی کہانیاں شیئر کرتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا؟ ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔‘‘
اندرون لاہور میں واقع اس اسکول میں تقریبا 200 بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پسماندہ گھرانوں سے ہے۔ اس اسکول میں سماعت سے محروم بچوں کو زندگی کا نیا جذبہ فراہم کیا جا رہا ہے۔
سماعت سے محروم بچوں کی مشکل زندگی
پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کے تقریباً دس لاکھ بچے سماعت سے محروم ہیں لیکن ان میں سے صرف پانچ فیصد ہی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ لڑکیوں کی بات کی جائے تو یہ تعداد مزید کم ہو جاتی ہے۔ اپنے جذبات کے اظہار کی زبان کے بغیر ایسے بچے نہ صرف معاشرے بلکہ اپنے خاندانوں میں بھی تنہا رہ جاتے ہیں۔
قرت العین کہتی ہیں، ''زندگی تھوڑی مشکل ہے۔ یہاں ایک بہت بڑا کمیونیکیشن گیپ ہے کیوں کہ لوگ عام طور پر اشاروں کی زبان نہیں جانتے ہیں۔‘‘
''چیریٹی ڈیف ریچ‘‘ کے زیر انتظام چلنے والے اس اسکول میں قومی نصاب میں آگے بڑھنے سے پہلے طلبہ انگریزی اور اردو میں اشاروں کی زبان سیکھتے ہیں۔
اشاروں کی زبان میں ہر بچے کا ایک نام بھی ہے، جس کا تعلق اکثر اس کی کسی جسمانی خصوصیت سے ہوتا ہے۔
چھوٹے بچوں کو تصاویر کے ساتھ تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک لفظ اور ایک نشان (اشارہ) ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔ ڈیف ریچ کی بنیاد سن 1998 میں ایک امریکی شہری نے رکھی تھی اور یہ ادارہ عطیات سے چلتا ہے۔ ڈیف ریچ کے اب ملک بھر میں آٹھ اسکول ہیں۔ یہ اسکول تقریباً 2000 طلبہ کو ''جتنی فیس آپ برداشت کر سکتے ہیں، ادا کریں‘‘ کی بنیاد پر تعلیم دے رہے ہیں اور یہاں کے 98 فیصد بچے اسکالرشپ پر ہیں۔
سماعت سے محروم بچوں کے والدین کی مشکلات
زیادہ تر سماعت سے محروم بچوں کا تعلق ان خاندانوں سے ہوتا ہے، جو سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے میں سماعت سے محروم بچوں کے اہلخانہ کو بھی اشاروں کی زبان سیکھنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی بات سمجھ سکیں۔
35 سالہ عدیلہ اعجاز کا پہلا بیٹا بہرہ تھا اور اب وہ دس برس کا ہو چکا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں شروع میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ''یہ سب کے لیے مشکل تھا کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کے ساتھ بات چیت کیسے کی جائے۔ ہر کوئی ہمیں بتاتا کہ وہ بہرا ہے لیکن میں یہ ماننے کو تیار نہیں تھی۔‘‘
اب یہ دونوں ماں بیٹا ہی اشاروں کی زبان سیکھ رہے ہیں۔ عدیلہ اعجاز کہتی ہیں، ''میری اشاروں کی زبان اب اچھی ہو رہی ہے اور اب میں اپنے بیٹے کے ساتھ بات چیت کرنے کے قابل ہوں۔ اب اس کی مجھ سے وابستگی بھی بڑھ رہی ہے۔‘‘
یہ اسکول ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کرتا ہے اور اس نے ایک آن لائن لغت کے ساتھ ساتھ ایک فون ایپ بھی بنا رکھی ہے۔ اس تنظیم نے تقریباً 50 پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مل کر 2,000 سے زیادہ سماعت سے محروم لوگوں کو روزگار بھی فراہم کیا ہے۔
26 سالہ حذیفہ، جو کم عمری کے وقت بخار میں مبتلا ہونے کے بعد سماعت سے محروم ہو گئے تھے، کو ڈیف ریچ میں سلائی کرنے کی تربیت دی گئی تھی تاکہ وہ ہنرمند افرادی قوت میں شامل ہو سکیں۔ حذیفہ کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، '' سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو اشاروں کی کوئی زبان نہیں آتی تھی۔ وہ صرف بورڈ پر نوٹ لکھتے اور ہم سے کہتے کہ اس کو کاپی کر لیں۔ ہم واقعی مایوس ہو جاتے تھے اور میں اپنے مستقبل کے لیے بہت پریشان رہتا تھا۔‘‘
حذیفہ کے والدین نے بھی اس کا بھرپور ساتھ دیا کیوں کہ وہ اسے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتے تھے۔ حذیفہ بتاتے ہیں، ''میرے والدین نے مجھے راستے میں نہیں چھوڑا۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں۔‘‘
اشاروں کی زبان ہر ملک سے دوسرے ملک میں مختلف ہوتی ہے۔ مختلف ثقافت کی وجہ سے اس میں بعض اوقات علاقائی تبدیلیاں بھی کر دی جاتی ہیں۔ ورلڈ فیڈریشن آف دی ڈیف کے مطابق دنیا میں تقریباً 70 ملین سماعت سے محروم افراد میں سے 80 فیصد کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
21 سالہ فیضان گزشتہ 11 سال سے ڈیف ریچ میں ہیں اور بیرون ملک کام کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''میں گھر میں بےکار بیٹھا رہتا تھا، موبائل استعمال کرتا یا باہر کھیلتا تھا۔ مجھے کبھی اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ لوگ مجھے کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
فیضان بتاتے ہیں، ''اشاروں کی زبان سیکھنے سے پہلے میں خود کو ذہنی طور پر بہت کمزور محسوس کرتا تھا، مجھ میں احساس کمتری اور خوف تھا لیکن شکر ہے کہ اب ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘
پاکستان میں تبدیلی کا آغاز
پاکستان معاشرے میں میں معذور افراد کے ساتھ رویہ آہستہ آہستہ بہتر ہو رہا ہے جبکہ حکومت نے امتیازی سلوک کے خلاف قوانین بھی متعارف کرائے ہیں۔ ڈیف ریچ فاؤنڈیشن کے آپریشنز ڈائریکٹر ڈینیل مارک لینتھیئر کہتے ہیں، ''ہم نے کئی برسوں کے دوران لوگوں کی ذہنیت میں زبردست تبدیلی دیکھی ہے۔ پہلے بہت سے لوگوں اپنے سماعت سے محروم بچوں کو چھپاتے تھے، شرمندگی اور شرم محسوس کرتے تھے۔‘‘
ڈینیل مارک لینتھیئر کے مطابق، '' اب اہلخانہ کھل کر سامنے آ رہے ہیں، اپنے بچوں کے لیے تعلیم اور روزگار مانگ رہے ہیں۔‘‘
تاہم وہ کہتے ہیں اب بھی بہت سا کام کرنے کے لیے باقی ہے، ''دس لاکھ کے قریب سماعت سے محروم بچوں کی اسکولوں تک رسائی نہیں ہے۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، یہ ایک بہت بڑا ہدف ہے، جس کو پورا کیا جانا چاہیے۔‘‘
ا ا / ع ب (اے ایف پی)