سمندر میں پیدا ہوئے درجنوں بچے آنکھ کھولتے ہی مہاجر بن گئے
10 مئی 2018نائیجیریا کی ایک مہاجر خاتون اسٹیفینی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ربڑ کی اُس کشتی میں لوگ بری طرح بھرے ہوئے تھے۔ مجھے بہت شدید درد تھا۔‘‘ اسٹیفینی نے اپنی بچی فرانسسکا کو ایک امدادی کشتی پر جنم دیا تھا۔
پبھرے ہوئے سمندر کو پار کرنے کی کوشش میں ایسے بہت سے عوامل ہیں جن کے سبب حاملہ خواتین میں زچگی کا درد شروع ہو سکتا ہے۔ ان میں دباؤ، کشتی کے ہچکولے اور یہاں تک کہ بچا لیے جانے کے بعد ملنے والا اطمینان بھی شامل ہے۔
سمندر میں بچوں کو جنم دینے والی مہاجر خواتین کی تعداد کم نہیں ہے۔ سن 2014 سے اب تک بالغ خواتین کے علاوہ قریب اسّی ہزار خواتین اطالوی ساحلوں پر اتری ہیں۔
اُن کی اکثریت نوجوان خواتین پر مشتمل تھی اور بہت سی خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایکوئیریس نامی ایک امدادی جہاز پر کام کرنے والی جاپانی مڈ وائف مارینہ کوجیما نے بتایا، ’’میں ایسی بہت سی عورتوں سے ملی ہوں جنہیں ریپ کیا گیا تھا۔ انہیں اکثر محض کشتی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے اپنے جسم کا سودا کرنا پڑا۔‘‘
ان خواتین کے لیے حمل کی کیفیت صحرا عبور کر کے لیبیا پہنچنے سے زیادہ تکلیف دہ ہے اور سمندر میں بچے کی پیدائش ایک خوفناک تجربہ ہو سکتا ہے۔
امدادی کارکنان کے لیے صحت مند اور زندہ بچوں کی پیدائش اس قدر طاقتور تجربہ ہے کہ وہ اسے یورپی یونین کی انسداد انسانی اسمگلنگ کی کارروائی کو دوبارہ سے پبتسمہ دینے یا نئی زندگی دینے کے برابر سمجھتے ہیں۔
مہاجرین نے نئی زندگیوں کو دنیا میں لانے میں مدد دینے کے لیے دو طرح سے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر اسٹیفینی نے اپنی نومولود بیٹی کا نام فرانسسکا، مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کے نام پر رکھا جبکہ سن 2016 میں ایکوئیریس نامی امدادی بحری جہاز پر پیدا ہونے والے ننھے ڈیزائر الیکس کا نام جہاز کے کیپٹن کے نام پر رکھا گیا تھا۔
بحری قانون کے مطابق سمندر میں پیدا ہونے والے بچے اسی ملک کے شہری تصور کیے جاتے ہیں جس ملک سے وہ جہاز تعلق رکھتا ہے۔ مثلاﹰﹰ فرانسسکو جہاز پر جنم لینے والے بچے اٹلی کے، صوفیا پر پیدا ہونے والے جرمنی کے اور مرسی نامی بحری امدای جہاز پر آنکھ کھولنے والے نومولود برطانیہ کے شہری مانے جائیں گے۔
تاہم ان ملکوں میں شہریت کے سخت قوانین ہونے کے سبب ایسے بچے یورپی پاسپورٹ کے حق دار نہیں ہوں گے۔
ص ح/ اے ایف پی