سمندروں میں موجود کئی ٹن پلاسٹک زندگی کے لیے خطرہ
سمندروں میں ٹنوں کے حساب سے موجود پلاسٹک کا کُوڑا مچھلیوں کے لیے نقصان دہ ہے اور سمندری حیات کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ پلاسٹک کی یہ آلودگی کتنی خطرناک ہے اور اس پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔
ٹنوں وزنی کُوڑا
آٹھ جون کو ورلڈ اوشنز ڈے یعنی سمندروں کا عالمی دن منایا گیا۔ ایلن میکارتھر فاؤنڈیشن کے ایک مطالعاتی جائزے کے مطابق ہر سال کم از کم آٹھ ملین ٹن پلاسٹک کا کُوڑا سمندروں میں پہنچ جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو سن 2050ء میں اس کُوڑے کی مقدار سمندروں میں موجود مچھلیوں سے بڑھ جائے گی۔ اس کُوڑے سے بحرالکاہل کے مِڈ وے آئی لینڈ کے دُور دراز کے ساحل بھی متاثر ہوتے ہیں۔
پلاسٹک کی عادت
سمندری لہریں پلاسٹک کے کُوڑے کو انتہائی باریک ذرات میں تبدیل کر دیتی ہیں اور سمندری جانور ان ذرّوں کوخوراک سمجھ کر کھا لیتے ہیں۔ اپسالا یونیورسٹی کے ایک جائزے کے مطابق پلاسٹک کھانے سے مچھلیوں کی صحت پر ہولناک اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کے مرنے کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ کچھ مچھلیاں ترجیحی طور پر پلاسٹک کھاتی ہیں۔ مچھلیوں میں پلاسٹک کی موجودگی انسانی صحت کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔
کھانے کے لیے متبادل اَشیاء
واشنگٹن میں قائم اوشن کنزروینسی نامی گروپ کا اندازہ ہے کہ سمندر میں جانوروں کی 690 سے زائد اقسام پلاسٹک کی آلودگی سے متاثر ہو رہی ہیں۔ اس آلودگی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کچھ کمپنیاں متبادل خوراک پر بھی کام کر رہی ہیں۔ فلوریڈا کی ڈیلرے بِیچ کرافٹ بریوری اس سال اکتوبر سے اپنے ٹِن پیکس کی پیکنگ کے لیے گندم کی باقیات استعمال کررہی ہے، جسے سمندری جانور خوراک کے طور پر بھی استعمال کر سکیں گے۔
پیکنگ کے لیے متبادل مادے
سمندروں میں پہنچنے والا زیادہ تر کُوڑا پلاسٹک کے اُن بیگز یا شاپرز پر مشتمل ہوتا ہے، جو ایک ہی دفعہ کے استعمال کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔ اب کچھ کمپنیاں قدرتی مادوں سے بنے شاپرز بنانے پر کام کر رہی ہیں۔ پولینڈ کے ایک پلانٹ میں گندم کے بھوسے سے شاپرز بنائے جا رہے ہیں۔ ان بیگز کو اوون یا فریزر میں بھی رکھا جا سکے گا، انہیں کھایا بھی جا سکے گا اور یہ تیس دنوں میں مکمل طور پر تحلیل ہو جایا کریں گے۔
بانس: پلاسٹک کا ایک اور متبادل؟
بانس تیزی سے بڑھتا ہے اور پلاسٹک کا بہترین متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کی مدد سے دانت صاف کرنے کے برش یا شاور کے پردے بھی بنائے جا سکتے ہیں، حتیٰ کہ کمپیوٹر کے مختلف حصے بھی۔ ٹونگو جیانگ چیاؤ بیمبو اینڈ وُڈ انڈسٹری کمپنی (تصویر میں) نے بانس کی مدد سے کی بورڈز، ماؤس اور مانیٹرنگ کیسز بنانے کا کام 2008ء میں شروع کیا تھا۔
سمندروں میں پلاسٹک کا کُوڑا اکٹھا کرنے کا ایک اور طریقہ
سمندروں میں پلاسٹک کا کُوڑا چھوٹے سے چھوٹے ذرات میں تقسیم ہوتا ہوا صدیوں تک موجود رہے گا۔ ہالینڈ کی ’اوشن کلین اَپ‘ نامی فاؤنڈیشن ایک سو کلومیٹر کے تیرتے ہوئے فلوٹنگ ڈیم سسٹم کے ذریعے پلاسٹک کا کُوڑا جمع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس طرح مچھلیوں اور دیگر سمندری حیات کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچے گا۔ اس طرح کا پہلا سسٹم 2020ء میں بحرالکاہل میں نصب کر دیا جائے گا۔
کُوڑے سے بنا فیشن
ہسپانوی کمپنی Ecoalf سمندروں میں موجود پلاسٹک کے کُوڑے سے ملبوسات تیار کر رہی ہے۔ میڈرڈ کی یہ کمپنی بحیرہٴ روم میں دو سو ماہی گیر کشتیوں کے ذریعے جمع کیے گئے کُوڑے سے دھاگا تیار کرتی ہے اور پھر اُس سے فیشن ایبل جیکٹیں اور دیگر مصنوعات تیار کرتی ہے۔ اس طرح سمندوں میں تیرتے پلاسٹک کو ری سائیکل کر کے اُس سے اور بھی مختلف طرح کی اَشیاء بنائی جا رہی ہیں۔
کم استعمال، ری سائیکلنگ اور دوبارہ استعمال
پلاسٹک کے کُوڑے کو اس کی اصل شکل میں بھی پھر سے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ پہلے ورلڈ اوشن ڈے کے ٹھیک بیس برس بعد سن 2012ء میں پائیدار ترقی کے موضوع پر اقوام متحدہ کی کانفرنس ریو پلس ٹوئنٹی میں پلاسٹک کی بوتلوں سے تیار کردہ اس دیو ہیکل مچھلی کی نمائش ریو ڈی جینیرو کے ساحلوں پر کی گئی تھی۔