سمندروں میں پناہ گزینوں کی تلاش اور سلامتی کی کوششیں
غیر سرکاری تنظیم ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی مدد کر رہی ہے۔ ان کا جہاز ’’ ڈگنٹی ون‘‘ بھی اب تک کئی ہزار افراد کو ڈوبنے سے بچا چکا ہے۔ ان کارروائیوں کی تصاویر
ہر لمحہ تیار
فینیکس اور آرگوس کی طرح ڈگنٹی ون بھی ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز’ایم ایس ایف‘ کے اس بحری بیڑے کا کا حصہ ہے، جو 2015ء کے دوران بحیرہ روم میں گشت کر رہا ہے۔ پچاس میٹر لمبا یہ جہاز پانچ ہزار سے زائد افراد کو محفوظ طریقے سے خشکی پر پہنچا چکا ہے۔ یہ تینوں جہاز اب تک سترہ ہزار افراد کو لہروں کی نذر ہونے بچا چکے ہیں۔
سمندر میں در بہ در
ان چھوٹی کشتیوں کے ذریعے بحیرہ روم پار کرنے کی قمیت پانچ سو یورو تک ہوتی ہے۔ بظاہر نا توا دکھائی دینے والی ان کشتیوں پر اسمگلرز کی بڑی بڑی کشیتوں سے زیادہ بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ سیکنڈ آفیسر ڈیوڈ برادوس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ’’ایسی کشتیاں ڈوبتی نہیں لیکن بڑی کشتیاں اکثر غرق ہو جاتی ہیں اور مسافر ان میں پھنس جاتے ہیں۔‘‘
ہم کامیاب ہو گئے
’ڈگنٹی ون‘ پر سوار زیادہ تر مہاجرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لیبیا میں انسانی اسمگلروں نے بتایا تھا کہ انہیں ایک جہاز محفوظ طریقے سے اٹلی لے جائے گا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس سال اب تک تین لاکھ سے زائد افراد سمندر کے راستے یورپ پہنچنے کا یہ پُر خطر سفر کر چکے ہیں۔
خواتین اور بچے پہلے
مہاجرین کی کشتیوں میں سب سے پہلے خواتین اور بچوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ کسی بھی کشتی پر سوار افراد کا دس سے پندرہ فیصد تک ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق اکثر کشتیوں پر تو حاملہ خواتین بھی سوار ہوتی ہیں یا نوزائیدہ بچے ان کی گود میں ہوتے ہیں۔ ان خواتین کو خصوصی توجہ اور طبی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
عرشے پر افریقہ
بلقان کے ذریعے یورپ پہنچنے والوں کی نسبت لیبیا سے بحیرہ روم کے راستے یورپ میں داخل ہونے کی خواہش رکھنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق افریقی ممالک سے ہوتا ہے۔ لیبیا سب صحارہ ممالک کے اُن مہاجرین کا مسکن بن چکا ہے، جو یورپ آنا چاہتے ہیں۔ اس دوران بہت سے افریقیوں کے ساتھ بد سلوکی اور انہیں قتل کر دینے تک کی اطلاعات ہیں۔
غلاموں کی تجارت
سینیگال سے تعلق رکھنے والے امین جابی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ’’لیبیا میں ایک حراستی مرکز میں بند کرنے کے بعد وہاں موجود محافظوں نے مجھے ایک موبائل فون دیا اور کہا کہ میں اپنے اہل خانہ سے بات کروں۔ اور اگر انہوں نے تاوان ادا نہ کیا تو مجھے مار دیا جائے گا۔ مجھے تو چھوڑ دیا گیا لیکن جو لوگ رقم ادا نہیں کر پاتے انہیں غلام بنا کر تعمیراتی کمپنیوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔‘‘
ڈراؤنے خواب کا اختتام
متعدد خواتین نے بتایا کہ انہیں لیبیا میں قائم بدنام زمانہ حراستی مراکز میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا عملہ نفسیاتی اور طبی سہولیات مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ جہاز پر ہی ایڈز کا ٹیسٹ بھی کرتا ہے۔ اس تنظیم کی لورا پاسکیرو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ان میں سے زیادہ تر خواتین صدمے کا شکار ہوتی ہیں اور جو بات کرنے کے قابل ہوتی ہیں وہ صرف بھیانک واقعات ہی بیان کرتی ہیں‘‘۔
بے خوابی
نائجیریا سے تعلق رکھنے والی ایولین نے اپنی کہانی کچھ یوں بیان کی:’’مجھے طرابلس کے پاس پانچ ملسح افراد نے پکڑا اور وہ مجھے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتے تھے لیکن وہ میرے ایام ماہواری تھے۔ یہ دیکھ کر وہ غصے میں آ گئےاور مجھے اتنا مارا کے میں بے ہوش ہو گئی۔ میرے شوہر نے یہ سارے اخراجات ادا کیے ہیں اور یہاں اٹلی میں اس کا انتظار کر رہی ہوں‘‘۔
’ڈگنٹی ون‘ سے اٹلی منتقلی
’ ڈگنٹی ون‘ گنجائش کے حوالے سے چھوٹا ہے اور اس کی رفتار بھی قدرے کم ہے۔ اس وجہ سے یہ زیادہ تر لیبیا کے ساحلوں کے قریب قائم کیے جانے والے’’ریسکیو زون‘‘ میں ہی موجود رہتا ہے۔ اس پر سوار پناہ گزینوں کو بڑی کشتیوں کے ذریعے اٹلی پہنچایا جاتا ہے، جو زیادہ تر اطالوی جزیرے سیسلی یا ریجیو کالابریا کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتی ہیں۔
بہت زیادہ توقعات
ساحل پر پہنچنے کے بعد کیا ہو گا؟ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اسے نظر انداز کرتی ہے۔ انہیں بعد میں شمالی اٹلی پہنچایا جاتا ہے، جہاں ایک ماہ تک ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس کے بعد بہت سے کام تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ وہ آبائی ممالک میں موجود اپنے اہل خانہ کو پیسے بھیجنا چاہتے ہیں۔ اٹلی میں روزگار تلاش کرنا بہت مشکل ہے اور اس وجہ سے بہت سوں کو تو زندہ رہنے کے لیے بھیک تک مانگنا پڑتی ہے۔