سمندری طوفان پَیٹ بھارتی ساحلی علاقوں میں
7 جون 2010سندھ کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل صالح احمد فاروقی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ 34 ہزار لوگوں کو کراچی کے قریب جزیروں سے محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا تھا جبکہ بدین، ٹھٹھہ اور کیٹی بندر سے 30 ہزار لوگوں کو خطرناک علاقوں سے ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
صالح فاروقی کا کہنا ہے کہ ’پَیٹ‘ نامی یہ سمندری طوفان براہ راست پاکستانی ساحلی علاقوں سے نہیں ٹکرایا اور ساحلی علاقوں میں زیادہ تر تیز بارشوں اور طوفانی ہواؤں کی وجہ سے نقصانات ہوئے ہیں۔
دوسری طرف محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل قمر زمان چودھری نے پیر کے روز ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب صوبہ بلوچستان کے ماہی گیر سمندر میں اپنی سرگرمیاں شروع کرسکتے ہیں جبکہ سندھ کے ماہی گیروں کے لئے اطلاعات موسمی صورت حال کے تازہ ترین جائزے کے بعد جاری کی جائیں گی کیونکہ کراچی اور لسبیلہ میں اب بھی تیز بارشوں کا امکان ہے۔
کراچی شہر میں ہفتہ کی رات شروع ہونے والی تیز بارشوں نے پیر کی شام تک معمول کی شہری زندگی درہم برہم کئے رکھی۔ شہر کی مرکزی شاہراہوں کے علاوہ نشیبی علاقوں میں تین سے چار چار فٹ تک پانی کھڑا ہوگیا اور سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں اور بارش نے بجلی اور پانی کی فراہمی اور نکاسیء آب کے نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ذرائع کے مطابق بارش کے دوران یا اس کے بعد پیر کی شام تک کرنٹ لگنے کی وجہ سے شہر میں کم ازکم بارہ افراد جاں بحق ہوچکے تھے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بری، بحری اور فضائی افواج نے اس طوفان کے اثرات سے نمٹنے کے لئے تمام تیاریاں مکمل کرلی تھیں کیونکہ اگر یہ طوفان پاکستانی ساحلوں سے براہ راست ٹکراتا تو وسیع پیمانے پر تباہی ہوتی، لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: مقبول ملک