1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ: اسکول وڈیروں کے اصطبل تو کہیں مویشیوں کے باڑے

22 جون 2020

صوبہ سندھ، جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھا، جہاں خواتین کی شرح خواندگی بائیس فیصد تھی، جہاں لڑکیاں پرائمری کے بعد مزید تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں، جہاں کئی اسکول وڈیروں کے اصطبل تو کہیں مویشیوں کے باڑے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3e96Q
DW Urdu Bloggerin Farzana Jaffri
تصویر: privat

جہاں پہلے ہی دیہی علاقوں میں اسکولوں کی کمی ہے، دور دراز کے گنے چنے اسکولوں کی حالت بھی خستہ ہے اور کئی کے کمروں پر چھتوں کا نام و نشان نہیں۔ سردی ہو یا گرمی بچے کھلے میدانوں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہاں کورونا کے بعد کیا حالات ہوں گے؟

جیسے تیسے پرائمری پاس کر لینے کے بعد سیکنڈری کا درجہ آتا ہے مگر دیہات میں کم از کم لڑکیوں کے لیے تو یہ ناممکن ہی ہوتا ہے کہ وہ ان جماعتوں میں داخلہ لے سکیں کیونکہ دیہاتوں میں گرلز سیکنڈری اسکولز کا نہ ہونا ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔

سیکنڈری تعلیم حاصل کرنے کے لیے تیس چالیس منٹ پیدل راستہ طے کرنا پڑتا ہے، لڑکیوں کے ساتھ جنسی ہراسگی، اغوا جیسے واقعات کی وجہ سے والدین لڑکیوں کو پرائمری کے بعد گھر ہی بیٹھا لیتے ہیں۔ ان میں دو فیصد والدین ایسے بھی ہیں، جو خود تو پڑھے لکھے نہیں ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ ان کی بچیاں تعلیم حاصل کریں۔ وہ ٹرانسپورٹ کی ذمہ داری اٹھا کر بچیوں کو پڑھا رہے ہیں لیکن یہ تناسب دریا کے مقابلے میں ایک قطرے جتنا ہے۔

جب ایک گاؤں میں تین چار لڑکیاں بھی پڑھ لیں اور اپنی زندگی کو سنوار لیں تو دوسرے بھی اس کی تقلید کریں گے اورجب شمع سے شمع جلے گی تو جہالت کا اندھیر کم ہونے کی امید ہوگی۔

 جب سے کورونا کی آمد ہوئی ہے، سلسلہ تعلیم بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ سماجی فاصلے کی ہدایت کی وجہ سے اسکول بھی بند ہیں۔ تقریبا چار مہینے ہونے کو ہیں، بچے اسکولوں سے دور گھروں میں قید ہیں۔ اس تعلیمی بحران کو دیکھتے ہوئے نجی اسکولوں نے آن لائن کلاسز شروع کر دی ہیں اور ممکن ہے کہ اس طرح بچوں کا تعلیمی سال برباد نہ ہو۔

بلوچستان: ناقص انٹر نیٹ سگنل ،آن لائن کلاسز میں درپیش مسائل

شنید ہے کہ آن لائن امتحانات بھی لیے جائیں گے۔ آن لائن کلاسز اسکول کی کمی تو پوری نہیں کر سکتیں لیکن کم از کم ایک فائدہ ہو گا کہ بچے تعلیم سے مکمل طور پر دوری اختیار نہیں کر پائیں گے۔ یہ ایک عمدہ قدم ہے، ملک بھر میں پھر سے تعلیمی سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے حکومت سندھ نے بھی آن لائن کلاسز کے لیے اسکولوں سے ضروری معلومات اکٹھا کرنا شروع کر دی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی یہ کوشش کس قدر کار آمد رہے گی؟ شہروں میں تو پھر بھی یہ نظام سو فیصد نہ سہی لیکن پچاس فیصد کامیاب ہو سکتا ہے۔

ہمارے معاشرے کی ’حلال خود کشیاں‘

لیکن صوبہ سندھ کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے، جہاں تعلیم ویسے ہی بربادی کا شکار ہے، جہاں لڑکیوں کا تعلیم حاصل نہ کرنا ہی فکر مندی کی بات تھی۔ اب وہاں لڑکوں کی تعلیم بھی مشکلات کی شکار نظر آرہی ہیں کیوں کہ آن لائن تعلیم کے لیے ایک عدد سمارٹ فون اور ہر وقت انٹرنیٹ درکار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال میں بھی مہارت کا ہونا بھی ضروری ہے۔

 ایک مزدور جس کے گھر میں دو وقت کے کھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں، جن علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر نہیں، وہ کیا کریں گے؟  اگر کہیں خوش قسمتی سے انٹرنیٹ کی سہولت ہے بھی تو اس کی رفتار کچھوئے جیسی ہوتی ہے۔ وہاں پر آن لائن کلاسز اور بچوں کی تعلیم کس طرح سے ممکن ہے؟

جب تعلیم کا حصول اسکولوں کے ذریعے ممکن تھا، تب بھی حکومت کی جانب سے تعلیمی بہتری کے کے لیے کچھ خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔ اب وبا کے مسائل نے تعلیم حاصل کرنا دیہاتی بچوں کے لیے اور بھی مشکل کر دیا ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ہو سکتا کہ صوبہ سندھ کی دیہی آبادی مستقبل قریب میں ان پڑھ  ہی کہلائے۔

سندھ بھر میں تعلیمی میعار مزید کم ہو جائے، یہ ایک دو یا چار لوگوں کا مسئلہ نہیں ۔ آپ کا، میرا ، ہمارا سب کا سانجھا مسئلہ ہے۔کیونکہ یہ قوم کے معماروں کے مستقبل کا سوال ہے ۔ یہی کواکب و انجم رہے تو کیا ہو گا؟ یہ سوال باقی ہے!