سندھ میں ہزاروں اسکول غیر فعال، عدالتی رپورٹ
16 جولائی 2013پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے ہائیکورٹ کی طرف سے تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اس صوبے میں 6,721 گورنمنٹ اسکول ایسے ہیں جو اس وقت کام نہیں کر رہے۔ ملکی سپریم کورٹ کی ہدایت پر یہ رپورٹ ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کی طرف متعلقہ علاقوں اور اسکولوں کے باقاعدہ معائنوں کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق صوبے کے 27 اضلاع میں 4,450 اسکول تو ایسے ہیں جو کام نہیں کر رہے جبکہ 2,181 اسکول ایسے بھی ہیں جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے اور جنہیں ’گھوسٹ‘ اسکولوں کا نام دیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں سامنے آنے والا ایک تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ سات ہزار کے قریب ان اسکولوں کے لیے حکومت کی طرف سے مسلسل بجٹ فراہم کیا جا رہا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے اس بارے میں خصوصی کمیشن 11 فروری کو قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد ان ‘بھوت‘ اسکولوں کے بارے میں تفصیلات جمع کرنے کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے حوالے سے حکومتی لاپرواہی کی صورتحال کا جائزہ لینا بھی تھا۔
رپورٹ کے مطابق پورے صوبے میں قائم سرکاری اسکولوں کی کُل تعداد 48,227 ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے 524 اسکولوں پر ناجائز قبضہ کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے کئی کو جانوروں کے باڑے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تو کچھ پر متعلقہ علاقوں کے بااثر افراد نے اپنے مہمان خانے بنائے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کا حیران کُن پہلو یہ ہے کہ ’گھوسٹ‘ اسکولوں کی زیادہ تر تعداد ملکی صدر آصف علی زرداری کا ضلع بینظیر آباد میں موجود ہے۔ اسی ضلع میں ایسے 112 اسکول بھی موجود ہیں جن پر ناجائز قبضہ کیا جا چکا ہے۔
اندرون سندھ گھوسٹ اور بند اسکولوں کے بارے میں وہاں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں بھی آگاہ ہے۔ اندرون سندھ تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ساکار سوشل ویلفیئر کے جنرل سیکرٹری ریاض حسین چانڈیو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمارے سروے کے مطابق ہر ایک یونین کونسل میں اوسطاﹰ دو اسکول بند ہیں۔‘‘
ان اسکولوں کی بندش کی ایک بڑی وجہ ریاض حسین کے بقول محکمہ تعلیم کے اہلکاروں کی بدعنوانی ہے، ’’ایک وجہ تو یہ ہے کہ لاڑکانہ جیسے شہروں کے اساتذہ کی ڈیوٹی اگر گاؤں کے اسکولوں میں لگ جائے تو وہاں وہ ڈیوٹی پر نہیں جاتے۔ دوسری بڑی وجہ محکمہ تعلیم کے اہلکاروں کی بدعنوانی ہے۔ وہ ایسے اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ کا چار فیصد لیتے ہیں اور کاغذات میں ان کی حاضری ظاہر کر دیتے ہیں۔ اس نظام کو یہاں ویزا سسٹم کہا جاتا ہے۔‘‘
ریاض حسین نے سیاسی دباؤ کے علاوہ اساتذہ یونینز کو بھی اس طرح کے گھوسٹ اسکولوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں کا ہر تیسرا استاد یونین کا رکن ہے۔
کراچی میں ان بھوت اسکولوں کے حوالے سے کام کرنے والی ایک اور غیر سراری تنظیم NOW COMMUNITY سے وابسطہ کارکن ولیم صادق کہتے ہیں کہ حالیہ الیکشن میں جب سرکاری اسکولوں میں پولنگ اسٹیشنز قائم کرنے کے حوالے سے فیصلہ آیا، تب یہ بات مزید واضح ہو گئی تھی کہ یہاں ایسے اسکولوں کی خاصی بڑی تعداد ہے جن کا وجود صرف کاغذات کی حد تک تھا، ’’ جب ہم نے الیکشن کمیشن سے ان اسکولوں کی فہرست لی جہاں پولنگ اسٹیشن قائم ہونے تھے تو پتہ چلا کئی ایسے اسکول تھے جہاں اصل میں کچھ نہیں تھا۔ وہاں گھر بنے ہوئے تھے، پارک بنے ہوئے تھے، مگر اسکول نہیں تھے اور دیہی علاقوں میں یہ صورتحال تھی۔ تاہم حکومتی کاغذات میں وہ اسکول بنے ہوئے ہیں ۔ یہاں تک کہ پریذائڈنگ افسران بھی ان کاغذات میں دعویٰ کرتے نظر آئے کہ یہاں اسکول بنے ہوئے ہیں اس نمبر سے لے کر اس نمبر تک۔ ‘‘
ولیم کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال صرف دیہی علاقوں تک محدود نہیں ہے، ’’ ہمارے شہری علاقوں میں بعض سرکاری اسکولوں کی یہ حالت ہے کہ والدین ان اسکولوں میں بچوں کو داخل نہیں کراتے مگر کاغذات دیکھے جائیں تو پتہ چلے گا کہ ان میں بتایا جا رہا ہے کہ اس اسکول میں دو سو سے بھی زیادہ بچے زیر تعلیم ہیں۔ اور ایسے بھی کئی اسکول سامنے آئے ہیں جہاں بچوں کی تعداد ایک یا دو ہوتی ہے اور دس سے گیارہ ٹیچر اس اسکول میں پڑھاتے ہیں۔‘‘
غیر سرکاری تنظیمیوں کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اکثر حکومتی سطح ہر اس معاملے کی تحقیقات ہوتی ہیں کہ کتنے ایسے اسکول ہیں، جنہیں فنڈز جاری ہوتے ہیں لیکن ان کا وجود نہیں ہوتا۔ تاہم جب تک اس مسئلے کو سدھارنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی جائیں گی، ایسے اسکولوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آتا رہے گا۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ، کراچی
ادارت: عصمت جبیں