سندھ کی ثقافت بچانے کا میلہ، بلاول بھٹو زرداری تنقید کی زد میں
1 فروری 2014بلاول بھٹو زرداری چاہتے ہیں کہ کئی ہزار سال پرانے موہن جو ڈارو میں ثقافتی میلے کا انعاد کریں، تاہم ماہرین کے مطابق اس سے اس قدیمی ثقافی ورثے کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے پاکستان کے چیدہ ماہرین آثار قدیمہ کے حوالے سے کہا ہے کہ آج ہفتے کے روز موہن جو ڈارو میں منعقد کیے جانے والے اس میلے سے اس تاریخی جگہ کو خطرات لاحق ہیں۔
موہن جو ڈارو کئی ہزار برس قبل دریائے سندھ کے کنارے آباد ایک بہت بڑی تہذیب تھی، جو مٹ گئی، مگر اپنے پیچھے تاریخی نقوش چھوڑ گئی۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے عالمی تاریخی ورثہ کہلائے جانے والے موئن جو ڈارو کو سندھ کی شاندار تاریخی پہچان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری چاہتے ہیں کہ سندھ کی ثقافت کے تحفظ کے لیے عوامی آگاہی پیدا ہو۔ تاہم ماہرین آثارقدیمہ کا کہنا ہے کہ موہن جو ڈارو میں اس طرح کے میلے کے انعقاد کے لیے عوام کا جم غفیر جمع کرنے اور وہاں اسٹیج تعمیر کیے جانے سے اس ثقافتی ورثے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ موہن جو ڈارو پہلے ہی سیم کی وجہ سے نقصانات کا شکار ہے۔
حکومت سندھ کے مینیجمنٹ بورڈ برائے اینٹیکس اینڈ فزیکل ہیریٹیج کی رکن اور معروف ماہر آثارقدیمہ عاصہ ابراہیم کے مطابق، ’یہ پاگل پن کے علاوہ اور کچھ نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ان کے ادارے نے صوبائی حکومت کو ایک مراسلہ تحریر کیا ہے، جس میں فیسٹیول کی بابت توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ تشویش سے آگاہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیج، آواز اور روشنی اس تاریخی ورثے کی دیواروں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
جامعہ پنجاب کے آرکیالوجی کے شعبے کے سربراہ فرزند مسیح نے بھی اس سلسلے میں کہا، ’مجھے دکھ ہے جو وہاں کلچرل فیسٹیول کے نام پر کیا جانے والا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں تحفظات کی وجہ سے اس فیسٹیول میں شرکت سے انکار کر چکے ہیں۔
ادھر اس فیسٹیول کے انعقاد میں مصروف صوبائی حکومت کے عہدیداروں کے مطابق اس فیسٹیول سے موہن جو ڈارو کے آثار کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ صوبائی محکمہ برائے آثارقدیمہ کے ایک عہدیدار قاسم علی قاسم کے مطابق وہ اس سلسلے میں انتظامات کی نگرانی کر رہے ہیں اور ہر طرح سے اس بات کا خیال رکھا جا رہا ہے کہ میلے سے موہن جو ڈارو کو کسی طرح کا کوئی نقصان لاحق نہ ہو۔ خیال رہے کہ موہن جو ڈارو کے آثار کئی سو برس قبل مسیح کی تہذیب کے ہیں اور ان میں سے صرف ایک تہائی سن 1922ء میں دریافت کیا گیا تھا۔