سنکيانگ ميں انتہا پسندی سے سختی سے نمٹيں گے، چينی حکام
8 اگست 2011سنکيانگ ميں چينی کميونسٹ پارٹی کے قائد جانگ چُن سيان چين کے دور دراز کے اُس مغربی صوبے کے اعلٰی عہديداروں ميں سے ايک ہيں، جہاں سرکاری افسران نے گڑبڑ پھيلانے والوں سے کسی بھی قسم کی نرمی برتنے يا اُن پر رحم کرنے کے خلاف بيانات ديے ہيں۔ سنکيانگ کے حکام نے تشدد اور ہنگاموں کے حاليہ واقعات کا ذمہ دار اسلامی شدت پسندوں کو قرار ديا ہے۔
جولائی کے آخر ميں کاشغر کے شہر ميں کيے جانے والے دو شديد حملوں ميں کم از کم 14 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہو گئےتھے۔ سنکيانگ کی صوبائی حکومت کی ويب سائٹ کے مطابق صوبائی کميونسٹ پارٹی کے قائد جانگ نے پچھلے جمعے کو پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’تشدد اور دہشت گردی کی نئی سرگرميوں کو کچلنے کے ليے ہميں پوری قوت سے کام لينا چاہيے۔‘‘
مسلم ايغور آبادی والے علاقے ميں قوميتی کشيدگی پيدا ہونے کے کئی دن بعد سکيورٹی فورسز نے اس ماہ کے آغاز سے کاشغر شہر کے مرکزی علاقوں کو کنٹرول ميں لے ليا ہے۔ سنکيانگ کی اقليتی ايغور آبادی سے تعلق رکھنے والوں نے حاليہ ہنگاموں کے دوران ايک ريستوران پر حملہ کر کے اس کے مالک اور ايک ويٹر کو قتل کرنے کے بعد قريبی سڑک پر چار راہگيروں کو بھی ہلاک کر ديا تھا۔
سنکيانگ کا رقبہ چين کے مجموعی رقبے کے 15 فيصد سے بھی زيادہ ہے۔ اس علاقے ميں قدرتی گيس اور تيل کے ذخائر پائے جاتے ہيں۔ يہاں کی مسلم ايغور آبادی ايک طويل عرصے سے يہاں ہُن چينيوں کی موجودگی اور چينی حکومت کی سياسی اور مذہبی پابنديوں کی مخالفت کر رہی ہے۔
سنکيانگ کی کميونسٹ پارٹی کے قائد جانگ نے ’غير قانونی مذہبی سرگرميوں‘ کی روک تھام اور استحکام قائم رکھنے کا بھی مطالبہ کيا ليکن اُنہوں نے اس کی وضاحت نہيں کی۔ جانگ کے الفاظ چينی پوليس کے اعلٰی ترين افسر مينگ جيانزو کے اُس بيان کی باز گشت بھی ہيں، جن ميں اُنہوں نے کہا تھا کہ چين دہشت گردانہ سرگرمياں پھيلانے والوں سے کسی قسم کی نرمی نہيں برتے گا۔
جولائی سن 2009 ميں سنکيانگ کا صوبائی دارا لحکومت اُرومچی ہُن چينيوں کی اکثريتی آبادی اور ايغوروں کے درميان پھوٹ پڑنے والی لڑائی سے لرز اٹھا تھا، جس ميں تقريباً 200 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک شدگان کی اکثريت ہُن چينيوں کی تھی۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: امجد علی