سنکیانگ میں داڑھی رکھنا جرم ہے
30 مارچ 2015چینی روزنامے چائنہ یوتھ ڈیلی کے مطابق سِنکیانگ کی ایک عدالت نے نخلستانی شہر کاشغر کے ایک اڑتیس سالہ ایغور مسلمان کو داڑھی رکھنے کی پاداش میں چھ برس قید کی سزا سنائی ہے۔ اس اخبار کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اِسی شخص کی بیوی کو نقاب کرنے پر عدالت نے دو سال قید کا حکم سنایا ہے۔ داڑھی رکھنے والے شخص نے سن 2010 میں داڑھی رکھ لی تھی اور اُسی وقت سے اُس کی بیوی نے بھی باقاعدگی سے نقاب پہننا شروع کر دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق عدالت میں استغاثہ نے بتایا کہ دونوں میاں بیوی نے ایسا کرنے کے بعد عام لوگوں سے جھگڑے کرنے کے علاوہ اشتعال انگیز رویہ اپنا لیا تھا۔
کاشغر شہر کے پراپیگنڈا دفتر کے ایک ملازم نے اِس عدالتی حکم کی تصدیق کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ عدالتی فیصلے کے بارے میں آگہی نہیں رکھتا۔ یہ امر اہم ہے کہ سِنکیانگ کے حکام گزشتہ ایک برس سے مسلسل داڑھی رکھنے کے خلاف مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی ایک اور مہم ’پراجیکٹ بیوٹی‘ کے نام سے شروع کی گئی ہے جس میں خواتین کو تلقین کرتے ہوئے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ’نقاب کے بوجھ سے نجات حاصل کرتے ہوئے‘ ننگے سر گھومیں پھریں۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق بیجنگ حکومت ایغور مسلمانوں کی ثقافت اور مذہب کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور اسی وجہ سے وسطی ایشیا کے اِس چینی علاقے میں بیجنگ حکومت کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔
ورلڈ ایغور کانگریس کے ترجمان دلشاد راشد نے اِس مقدمے کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ سیاسی جبر کی ایک مثال ہے اور ایغور مسلمان مسلسل اِسی جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ راشد کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں داڑھی رکھنے پر سزا نہیں سنائی جاتی۔ عالمی ایغور کانگریس نے اِس صورت حال کو ناقابلِ قبول اور غیرمعقول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِس عمل سے چینی حکومت کے ایغور آبادی کے خلاف ناموافق رویے کا اظہار ہوتا ہے جو واضح طور پر ایک نامناسب حکومتی فعل ہے۔ دلشاد راشد کے مطابق اگر کوئی عام چینی شہری داڑھی بڑھا لے تو وہ فیشن کے زمرے میں آئے گی اور اگر ایسا ہی کوئی ایغور کرے تو یہ اقدام مذہبی انتہا پسندی کا مظہر خیال کیا جاتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ چین میں 55 مختلف نسلی اقلیتیں آباد ہیں۔ بیجنگ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اقلیتوں اور مذہبی گروپوں کے حقوق کی پاسداری کرتی ہے اور اقتصادی ترقی کے زمرے میں سبھی گروپ شامل ہیں۔ سِنکیانگ کے حکومت مخالف مسلمانوں کو علیحدگی پسند اور مذہبی انتہا پسند قرار دیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس اِس چینی علاقے میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔ مختلف پرتشدد واقعات میں کم از کم 200 افراد ہلاک ہوئے۔ چینی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان ہُووا چُن یِنگ کا کہنا ہے کہ چینی حکومت سِنکیانگ کی سلامتی اور اقتصادی ترقی کے علاوہ تمام نسلی گروپوں میں سماجی ہم آہنگی کو پروان چڑھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔