سنی عرب ریاستوں کا اصل دشمن ’ایران‘ ہے، اسرائیلی وزیر خارجہ
28 فروری 2017اسرائیل اور سعودی عرب جہاں ایران کے خلاف عالمی برادری کو متحد کرنے کی کوشش میں ہیں وہاں امریکی اراکین کانگریس نے ایسے اشارے دیے ہیں کہ وہ ایران پر نئی پابندیوں کی قرارداد کو متعارف کراتے ہوئے اِس کو منظور کرانے کی کوشش بھی کریں گے۔
میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے خلیج فارس کی سنی عرب ریاستوں کو تجویز کیا تھا کہ وہ اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے تہران حکومت کے ساتھ مکالماتی عمل شروع کریں۔ اس تجویز کو سعودی عرب نے مسترد کر دیا تھا۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ترکی بھی ایران کی مخالفت میں اسرائیل اور سعودی عرب کی کوششوں میں شریک ہو گیا ہے۔
ترک وزیر خارجہ مولود چاؤس اولو نے بھی تہران حکومت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایران مسلم دنیا میں فرقہ واریت کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ ترک وزیر خارجہ کا اشارہ سعودی عرب اور بحرین کی جانب ہے جہاں شیعہ اور سنیوں کے درمیان عدم سکون کی فضا قائم ہے۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ ایویگڈور لیبرمین نے کہا ہے کہ ایران کا حتمی ہدف سعودی دارالحکومت ریاض ہے اور سنی عرب ریاستوں کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کر کے خطے کے بنیاد پرست عناصر کو شکست دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ اسرائیل سنی عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی طرز پر ایک عسکری اتحاد بنانا چاہتا ہے۔ لیبرمین کے مطابق مشرق وسطیٰ میں تقسیم یہودی اور مسلمان کی نہیں بلکہ اعتدال پسند اور بنیاد پرست مسلمانوں کے درمیان پیدا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع ایویگڈور لیبرمین کے مطابق وقت آ گیا ہے کہ تمام اعتدال پسند قوتوں کو ملا کر مشرق وسطٰی میں دہشت گردوں کے خلاف ایک اتحاد بنایا جائے۔ ان کے بقول معتدل سنی ریاستوں کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ ان کا اصل دشمن اسرائیل نہیں ایران ہے۔ لیبر مین نے مزید کہا کہ یہ اتحاد نیٹو کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہی بنایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل ایک مضبوط ملک ہے اور وہ خود اپنا دفاع کر سکتا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے تہران حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر دہشت گردی کی ترویج میں ملوث ہونے کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا باعث ہے۔ عادل الجبیر نے میونخ سکیورٹی کانفرنس میں اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کو نظرانداز کر دیا تھا۔ الجبیر نے واضح طور پر کہا کہ جب تک ایران اپنا مجموعی رویہ تبدیل نہیں کرتا تب تک اُس کے ساتھ چلنا یا تعاون کرنا خارج از امکان ہے۔