سوئس اسکول میں بیٹیوں کی سوئمنگ کے مخالف مسلم باپ کو جرمانہ
30 جون 2016جنیوا سے جمعرات تیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس شخص کا کئی سالوں سے مسلسل اصرار تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو پیراکی کی تربیت کے ان کورسز میں حصہ نہیں لینے دے گا، جن کا اہتمام اسکول کی طرف سے تعلیمی نصاب کے ایک حصے کے طور پر کیا جاتا ہے۔
اس طرح اسی کیس نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں واقعے سوئٹزرلینڈ میں حکام کو غیر ملکی پس منظر کے حامل افراد کے سوئس معاشرے میں انضمام کے عمل میں کس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
سوئس خبر رساں ادارے اے ٹی ایس نے بتایا کہ حکام نے نجی کوائف کے تحفظ کے ملکی قوانین کی رو سے اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی، جو اپنی بیٹیوں کو اسکول میں سوئمنگ کے لازمی کورسز میں شرکت کی اجازت دینے سے اپنے مسلم مذہبی عقائد کا حوالہ دیتے ہوئے انکار کرتا آیا تھا۔ اس کے علاوہ ملزم اپنی بیٹیوں کو اسکول کے طلبا و طالبات کے مختلف کیمپوں میں شرکت کی اجازت دینے سے بھی انکاری تھا۔
اے ٹی ایس نے لکھا ہے کہ تارکین وطن کے پس منظر کے حامل اس شخص کو یہ سزا اس لیے بھی سنائی گئی کہ وہ دیگر ضمنی الزامات کے علاوہ بچوں کی لازمی تعلیم سے متعلق قانون کا احترام کرنے سے نہ صرف انکاری تھا بلکہ اس نے اس حوالے سے مقامی حکومتی اہلکاروں کے بار بار کے باقاعدہ احکامات کو بھی نظر انداز کر دیا تھا۔
اس مقدمے میں ملزم کے خلاف فیصلہ شمال مشرقی سوئٹزرلینڈ میں سینٹ گالن کے کَینٹن (انتظامی علاقے) میں آلٹ شٹَیٹَن (Altstaetten) کی ایک ضلعی عدالت نے سنایا۔ اسی مقدمے میں گزشتہ برس دسمبر میں بھی ملزم کو ایک عدالت نے قصور وار قرار دے دیا تھا۔ اس مرتبہ عدالت نے اپنا فیصلہ ملزم کی طرف سے گزشتہ عدالتی فیصلے کے خلاف دائر کردہ ایک اپیل کی سماعت کے بعد سنایا۔
اے ایف پی کے مطابق ملزم پیدائشی طور پر بوسنیا کا ایک مسلم شہری ہے، جو 1990ء سے سوئٹزرلینڈ میں رہائش پذیر ہے۔ تارکین وطن کے سماجی انضمام سے متعلق سوئس قوانین کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہوئے استغاثہ نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ملزم کو جرمانے کی سزا کے ساتھ ساتھ چار ماہ کی سزائے قید بھی سنائی جائے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں ملزم کو صرف چار ہزار سوئس فرانک (چار ہزار امریکی ڈالر یا 3700 یورو کے برابر) جرمانے کا حکم سنایا۔
سوئس حکام کے مطابق اسی بوسنیائی مسلمان اور اس کی اہلیہ کو گزشتہ برس ایک ذیلی عدالت نے اس وجہ سے بھی جرمانے کی سزا سنائی تھی کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو تب تک اسکول بھیجنے سے انکار کر دیا تھا، جب تک کہ انہیں اسکول میں مذہبی بنیادوں پر نقاب پہننے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اس عدالتی فیصلے کے خلاف بھی اس مسلم جوڑے نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ایک مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ اس مقدمے میں اعلیٰ ترین عدالت نے ذیلی عدالت کا فیصلہ منسوخ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس خاندان کی سب سے بڑی لڑکی کو مذہبی آزادی کے حق کی وجہ سے نقاب پہن کر اسکول جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔