سوئس میوزیم نازی دور کا فن پاروں کا ذخیرہ قبول کرنے پر تیار
24 نومبر 2014جدید دور سے تعلق رکھنے والے فنون لطیفہ کے یہ انتہائی بیش قیمت نمونے کارنیلیئس گُرلِٹ کے والد نے جمع کیے تھے، گُرلِٹ کے والد نازی جرمن دور میں فنون لطیفہ کے نمونوں کی تجارت کا کام کرتے تھے اور اس طریقے سے ہی انہوں نے انہیں اپنے نجی ذخیرے کا حصہ بنا لیا تھا۔
سوئٹزرلینڈ میں برن کے میوزیم آف فائن آرٹس کے مطابق اس بارے میں اس سوئس عجائب گھر کی انتظامیہ کا جرمن حکام کے ساتھ اتفاق رائے طے پا گیا ہے۔ برن کے اس میوزیم کی نگران فاؤنڈیشن کے سربراہ کرسٹوف شوئبلِن نے جرمن دارالحکومت برلن میں پیر 24 نومبر کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بیش قیمت فن پاروں کے اس خزانے میں شامل وہ پینٹنگز، جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ نازیوں نے لوٹ لی تھیں یا وہ ان کے یہودی مالکان سے زبردستی چھین لی گئی تھیں، آئندہ بھی جرمنی ہی میں رہیں گی۔ اس فیصلے کا مقصد یہ طے کرنا ہے کہ ایسے فن پارے کس طرح اور کن کن ہاتھوں سے ہوتے ہوئے کارنیلیئس گُرلِٹ کے والد کے قبضے میں آئے تھے۔
کرسٹوف شوئبلِن نے صحافیوں کو بتایا کہ آرٹ کے اس ذخیرے پر ’تاریخ کے بوجھ‘ کو مد نظر رکھا جائے تو اس بارے میں سوئس جرمن اتفاق رائے کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔
دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ، عشروں تک نجی ملکیت میں رہنے والے فن کے شہ پاروں کے اس ذخیرے کی موجودگی کے کچھ اشارے 2012ء میں ملے تھے۔ اس ذخیرے میں مجموعی طور پر آرٹ کے ایک ہزار دو سو اسی نمونے شامل ہیں۔ ان فن پاروں کو جرمن حکام نے اس وقت اپنے قبضے میں لے لیا تھا جب انہوں نے ٹیکس چوری کے شبے میں جنوبی جرمن شہر میونخ میں کارنیلیئس گُرلِٹ کے فلیٹ پر چھاپہ مارا تھا۔
آرٹ کے اس ذخیرے میں ماتِیس، پکاسو، رےنُوآ اور مونے جیسے مشہور فنکاروں کی تخلیقات بھی شامل ہیں۔ پولیس نے 2012ء میں گُرلِٹ کے فلیٹ پر چھاپہ اس لیے مارا تھا کہ اس سے قبل ستمبر 2010ء میں جرمن کسٹمز حکام نے سوئٹزرلینڈ سے آنے والی ایک ریل گاڑی سے گُرلِٹ کو ان کے پاس بڑی مقدار میں موجود نقد رقوم کے ساتھ گرفتار کر لیا تھا۔
آرٹ کے نمونوں کے اس ذخیرے کی موجودگی کی تصدیق نومبر 2013ء میں اس وقت ہوئی تھی، جب ذرائع ابلاغ کو فنون لطیفہ کے اس خزانے کا علم ہوا تھا حالانکہ اس سے قبل کارنیلیئس گُرلِٹ کی تمام عمر یہی کوشش رہی تھی کہ ان فن پاروں کی موجودگی کا کسی کو علم نہ ہونے پائے۔
جرمن تفتیشی ماہرین کے مطابق ان فن پاروں میں سے ممکنہ طور پر 458 تک فنی شاہکار ایسے ہیں، جو نازیوں نے ان کے زیادہ تر یہودی مالکان سے چھینے تھے۔