1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات اور بونیر کے زیادہ تر علاقوں پر سیکیورٹی فورسز کا کنٹرول

فرید اللہ خان، پشاور / عاطف توقیر3 جون 2009

سیکیورٹی فورسز نے مالاکنڈ ڈویژن کے ضلع سوات اوربونیر کے زیادہ ترعلاقوں کو عسکریت پسندوں سے صاف کرنے کادعویٰ کیا ہے سوات کے تحصیل چارباغ اور بونیر کے پیر بابا میں شدید جھڑپوں کے بعد ان علاقوں کاکنٹرول حاصل کرلیاہے۔

https://p.dw.com/p/I2w7
پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہےتصویر: AP

اس حوالے سے میجر جنرل سجاد غنی کاکہنا ہےکہ فوج کے زیر کنٹرول آنے والے علاقوں میں شہری اگلے ہفتے گھر واپس آسکتے ہیں جبکہ کالام کو سیاحت کے لئے اگلے سال کھول دیاجائےگا۔ سیکیورٹی فورسز کامؤقف ہے کہ وادی سوات کے شہر اور قصبوں کو آئندہ تین دن میں طالبان سے خالی کرالیں گے تاہم عسکریت پسندوں کو مکمل شکست دینے میں مزید دوماہ لگ سکتے ہیں فوج عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لئے مزید ایک سال تک مالاکنڈ میں قیام کرسکتی ہے۔

مالاکنڈ ڈویژن میں فوج کے زیر کنٹرول زیادہ تر علاقے آج بھی مسلسل کرفیو کی زد میں ہیں لاکھوں کی تعداد میں لوگ گھروں میں محصور ہیں۔ حکومتی اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ سوات کو بجلی پانی گیس اور اشیائے ضرورت کی بحالی کاسلسلہ سترہ جون سے شروع کیاجائےگا تاہم سوات اوردیگر شورش زدہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے واپس جانے کے لئے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپریشن کے نتائج سے حکومت سرحد مطمئن ہے لیکن سوات کے لوگوں کا اعتماد بحال کرنے میں ابھی وقت لگے گا لوگ حکومت کے کہنے پر واپسی کے لئے تیار نہیں کیونکہ حکومت عوام کا اعتماد کھوچکی ہے ۔ سوات کی تحصیل کبل سے نقل مکانی کرنے والے فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ: ’’دوسال سے ملاکنڈ ڈویژن اوربالخصوص سوات میں فوجی آپریشن جاری ہے ہمارے گھر، دکانیں کاروبارسب اس کی نذر ہوچکا ہے گھر تباہ جبکہ کاروبار بھی ختم ہوچکا ہے اسی طرح بجلی، گیس پانی اور دیگر اشیائے ضرورت کابھی فقدان ہے جبکہ امن وامان کی صورتحال بھی غیریقینی ہے آپریشن کی وجہ سے ہم دربدر ہوگئے اپنوں سے بچھڑ گئے اکثریتی لوگوں کے رشتہ دار جنگ میں مارے گئے اب بھی غیریقینی صورتحال ہے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ مالاکنڈ اوربالخصوص سوات پھر سے میدان جنگ نہیں بنے گا ہم ایسے حالات میں کسطرح واپس جائیں ہماری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ بحالی کے ساتھ سوات میں امن کے قیام کویقینی بنایاجائے اورمالاکنڈ کے عوام کا اعتماد بحال کیاجائے‘‘۔

Pakistan geht gegen den Taliban vor
طالبان کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے اس وقت پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں آ چکے ہیںتصویر: picture alliance / landov

سوات اور بونیر کے علاوہ ضلع دیر کے بعض علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کو مزاحمت کا سامنا ہے تیمرگرہ چھاؤنی سے میدان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر گولہ باری کی گئی جس کے نتیجے میں چار عسکریت پسند ہلا ک ہو گئے جبکہ واڑی کے علاقے سے بارہ مشتبہ افراد کو حراست میں لیاگیا۔

دوسری جانب کالام اور شمالی سوات میں فوج کواب بھی مزاحمت کا سامنا ہے جبکہ بونیر میں ایک ماہ کے آپریشن کے بعد سلطان وس اورطالبان کے گڑھ پیر بابا کے علاقے کو عسکریت پسندوں سے خالی کردیا ہے ان علاقوں پر فوج کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد صوبہ سرحد کے سینئر وزیر بشیراحمد بلور اور دیگر وزراء نے متاثرہ علاقوں کادورہ کیا ہے انہوں نے کہاکہ زیادہ تر علاقے عسکریت پسندوں سے خالی کرا لئے گئےاور قیام امن کے بعد فوج کی مرحلہ وار واپسی شروع ہوگی جبکہ علاقے کی بحالی کے لئے منصوبہ بندی مکمل کردی گئی ہے ان کا کہنا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کے لاکھوں لوگوں نے قربانی دےکر صوبے اور ملک کوعسکریت پسندوں کے عزائم سے بچا لیا ہے اگرمالاکنڈ کے عوام قربانی نہ دیتے تو عسکریت پسند پورے صوبے میں پھیل جاتے اور ان کی سرگرمیاں صوبے میں بڑھتی تو پھر پورا ملک ان کی شدت پسندی کاشکار ہوتا ایسے میں یہ لوگ ہمسایہ ممالک اور دنیا کے لئے باعث خطرہ بنتے۔

ادھر قبائلی علاقے خیبرایجنسی میں ہندواور سکھ برادری نے مقامی تنظیم لشکر اسلام کوجزیہ دینے کااعلان کیاہے۔ خیبرایجنسی میں ہندو،سکھ اورعیسائیوں کے سینکڑوں خاندان صدیوں سے آباد ہیں مقامی تنظیم لشکر اسلام نے ان کے سامنے تین شرائط رکھی تھیں جس میں جزیہ دینے یا پھر علاقہ چھوڑنے کاکہا گیاتھا تاہم اقلیتی برادری نے علاقہ چھوڑنے کی بجائے لشکر اسلام نامی تنظیم کو فی کس ہزار روپے سالانہ جزیہ دینے کا مطالبہ تسلیم کیا ہے جبکہ تنظیم کے سربراہ نے خواتین بچوں اورمغویوں سے جزیہ نہ لینے کی ہدایت کی ہے۔