سوات متاثرین کی واپسی، خدشات کے سائے میں
14 جولائی 2009آپریشن راہ راست کو مکمل قرار دینے کے بعد مالاکنڈ ڈویژن کے متاثرین کی واپسی کا پہلا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس اعلان کے مطابق مالاکنڈ ڈویژن کے ضلع بونیر اور سوات کے بعض علاقوں سے تعلق رکھنے والے 32ہزار افراد اپنے گھر روانگی کی تیاری مکمل کرچکے ہیں۔
پاکستانی حکومت ان کےلئے ٹرانسپورٹ اورخوراک کے ساتھ راستے میں سیکیورٹی دستے بھی فراہم کر رہی ہے تاہم سوات جانے والے اکثریتی متاثرین اس کشمکش میں مبتلاہیں کہ کہیں پھر سے عسکریت پسندوں کے کارروائیوں اور فوجی آپریشن کانشانہ نہ بنیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت عسکریت پسندوں کوختم کرنے کے دعوے کررہی ہے لیکن ان کی قیادت کے بارے میں کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی۔
دوسری جانب سوات بالخصوص مینگورہ میں عسکریت پسندوں کی جانب سے جگہ جگہ نصب کی جانے والی بارودی سرنگیں اور سوات طالبان کے سربراہ مولانافضل اللہ اوران کے ساتھیوں کے حالیہ بیانات بھی ان کی حوصلہ شکنی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان بیانات میں حکومت کاساتھ دینے والوں کوایک مرتبہ پھر خطرناک نتائج اوراپنے لیے سزا ء تجویز کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
معروف تجزیہ نگار اور قبائلی امور کے ماہر سلیم صافی کہتے ہیں : ’’حکومت کو مطلوب طالبان کی قیادت کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں ہے، جن لوگوں کی تصاویر اخبارات میں شائع کرائی گئیں ہیں۔ ان کے بارے میں ابھی تک حکومت عوام کو یہ بتانہیں سکی کہ وہ زندہ ہیں یاپھر آپریشن میں مارے گئے۔ دوسری اہم بات وہاں حکومتی اداروں کی ہے۔ پاکستانی فوج اب بھی بعض علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے جبکہ عسکریت پسندوں کے حوالے سے خبریں بھی آرہی ہیں۔ لوگوں کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں ایسے میں لوگوں کے شکوک وشبہا ت بجا ہیں۔ یہاں رجسٹریشن اور امداد بھی اس طرح حوصلہ افزاء نہیں رہی جس طرح میں میڈیا پیش کی جارہی ہیں۔ اب جانے کا مرحلہ آگیا اس پر بھی متاثرین کے تحفظات ہیں انفراسٹرکچر پر حکومت بات کررہی ہے، لیکن بحالی کے کام کا آغازتک نہ کرسکی کہ کم ازکم ان لوگوں کے گھروں تک پہنچنے کے لئے بعض علاقوں سے کرفیو اٹھایا جائے۔ طاقت کے استعمال کے باوجود نتائج سے عوام مطمئن نظرنہیں آرہے‘‘۔
سوات جانے والے عوام متاثرین کے ساتھ وہاں خدمات سرانجام دینے والے سرکاری اہلکار بھی امن وامان کے بارے میں حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں انہیں مسلسل عسکریت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ محکمہ صحت کے اہلکار خورشید ا حمد خان کا کہتے ہیں : ’’جب بھی حکومت نے سوات جانے کو کہا، اہلکاروں نے جانے کی کوشش کی لیکن راستے مین کرفیو کی وجہ سے رکناپڑا۔ ہمیں تو سمجھ نہیں آتا کہ ہم وہاں پہنچیں گے کیسے اوراگر پہاڑی راستوں کے ذریعے ہم وہاں پہنچ بھی گئے تو کریں گے کیا۔ 90 فیصد لوگ توعلاقہ چھوڑ گئے ہیں ہم ہسپتال میں بیٹھیں گے تو کس کا علاج کریں گے اورہم دوائی تجویز کریں گے تو مریض کہاں سے خریدیں گے۔ علاقے میں بجلی، پانی، مواصلات اور اشیاء خوردونوش کی کمی ہے، ایسے میں حکومتی اقدامات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر حکومت اپنے وعدے کے مطابق انفرسٹراکچر ٹھیک کرنے اورسیکیورٹی نہ ہونے کے باوجود لوگوں کو جانے پر کیوں مجبور کررہی ہے‘‘۔
رپورٹ : فرید اللہ خان، پشاور
ادارت : عاطف توقیر