سوات میں آٹھ روزہ فنون لطیفہ ورکشاپ اختتام پزیر
28 نومبر 2014آٹھ روزہ کیمپ کا انعقاد ہنرکدہ کے زیر اہتمام کیا گیا، جس کے لیے امریکی سفارت خانے کے کمیونٹی انگیجمنٹ آفس سے تعاون حاصل کیا گیا، جب کہ یو ایس ایڈ، پارسا، پی ڈی ایم اے، سواستو آرٹ اینڈ کلچر ایسوسی ایشن اور دیگر تنظیموں نے کیمپ کے انتظامات میں حصہ لیا۔ اس آٹھ روزہ کیمپ میں فنون لطیفہ کے ذریعے عدم برداشت کے موضوع کو اجاگر کیا گیا۔ اس کیمپ میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کے دو ہزار سے زائد طلباء وطالبات نے حصہ لیا۔
ہنرکدہ کے چیرمین ڈاکٹر جمال شاہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوات میں شورش کے دوران بچوں کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب ہوئے تھے، کیمپ میں فنون لطیفہ کے ورکشاپوں کے ذریعے ان کے ذہنوں سے منفی اثرات ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ’’طلباء و طالبات نے رنگوں، موسیقی، پینٹنگز اور دیگر فنون لطیفہ میں اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کیا اور اس بات کا ثبوت دیا کہ یہاں کے لوگوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہیں۔ ‘‘
آٹھ روزہ کیمپ میں تھیٹر، پینٹنگز، فوٹو گرافی، موسیقی اور فیشن ڈیزائنگ کو برادشت کے موضوع سے جوڑے رکھا اور صبر و تحمل اور برداشت کے ذریعے بہتر معاشرے کی تشکیل کا پیغام دیا گیا۔ اداکار سیف الدین حیدر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سوات میں پہلی مرتبہ اس قسم کا کیمپ منعقد کیا گیا، جس میں مختلف فنون لطیفہ کی ورکشاپس منعقد ہوئیں، ’’ہم تھیٹر اور ویڈیوز کے ذریعے گھریلو تنازعات کوسامنے لے کر آئے کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں سے انسان میں برداشت کا مادہ ختم ہو جاتا ہے اور پھر وہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے‘‘
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے فن کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کیا جائے تاکہ بہتر معاشرے کی تشکیل ہو سکے ۔
فیس آف کیمپ سترہ نومبر سے لے کر 24 نومبر تک جاری رہا اور اس کے لیے افغانستان، عرب امارات اور ملک بھر سے نامور فن کار مدعو کیے گئے تھے، جنہوں نے ورکشاپوں میں شرکت کرنے والے طلباء و طالبات کو تربیت دی۔ ہنر کدہ سوات کے ڈائریکٹر اور آرٹسٹ مراد خان نے بتایا، ’مقصد ہمارا یہی تھا کہ ان ہنرمندوں کی صلاحیتوں سے طلبہ بھی کچھ سیکھ سکیں اور طلبہ کے صلاحیتوں کو ہم بھی جان سکیں۔
’’کیمپ میں آرٹ سے منسلک وہ ساری چیزیں موجود تھی جس میں طلبہ دلچسپی رکھتے تھے، معاشرے میں عدم برداشت کا رجحان بڑھ رہا ہے، تو ہم نے اپنی پینٹنگز کے ذریعے ایسے پہلو اجاگر کیے جس سے برداشت کا مادہ پیدا کیا جا سکے‘‘۔
فیس آف انٹرنیشنل آرٹ کیمپ کا یہ چوتھا مرحلہ تھا۔ اس سے پہلے پشاور، اسلام آباد اور کوئٹہ میں بھی اس کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا جب کہ منتظمین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں وزیرستان میں بھی آرٹ کیمپ کا انعقاد کیا جائے گا۔ کیمپ میں شریک طالبہ تارہ نے ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ اس کو بچپن سے موسیقی کا شوق تھا لیکن سوات میں حالات سازگار نہ ہونے کے باعث وہ کبھی بھی اپنے ٹیلنٹ کا اظہار نہ کر پائی تھی۔ ’’کیمپ میں موسیقی کی ورکشاپ میں حصہ لیا اور موسیقی کے بارے بہت کچھ سیکھا اور اسٹیج پر پرفارم کرنے کا موقع ملا جس سے میری حوصلہ افزائی ہوئی اور بہت اچھا تجربہ ثابت ہوا۔ اس طرح کے پروگرام منعقد ہونے چاہیئں تاکہ طلبہ کی چُھپی ہوئی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔ ‘‘
بین الاقوامی فنون لطیفہ کیمپ میں دو ہزار سے بھی زائد طلباء و طالبات شریک ہوئے اور اپنی صلاحتیوں اور دلچسپیوں کے مطابق آرٹ کی ورکشاپس میں حصہ لیا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شورش زدہ سوات میں لوگوں کے ذہنوں اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے اس قسم کے پروگرام ہونے چاہیئں تاکہ بہتر معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہنوں سے منفی اثرات کا خاتمہ ہو سکے ۔