سوات کی ایک تاریخی مسجد کی بحالی
1 اکتوبر 2013اس میں سے دو ملین روپے علاقے کے مخیر حضرات نے جمع کیے جبکہ چار ملین اس ولندیزی تنظیم نے فراہم کیے۔ ایس پی سی نامی ایک تنظیم نے شوکت ایسوسی ایٹس کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے بہت کم عرصے میں مسجد کی تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا۔
کہا جاتا ہے کہ سن پندرہ سو عیسوی اور سولہ سو عیسوی کے درمیان یوسف زئی قبیلے نے سوات پر حملہ کیا اور یہاں پر قبضہ جما لیا۔ اُسی دور میں سپل بانڈئی کے مقام پر یہ مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ مختلف ادوار میں اس مسجد کی توسیع کا کام جاری رہا۔ سپل بانڈئی کی اس تاریخی مسجد کی تصدیق شدہ تاریخ تین سو پندرہ سال پیچھے تک جاتی ہے۔
اخوت و یگانگت کا ایک بڑا مرکز
علاقے کے وسط میں واقع ہونے اور علاقے کی واحد مسجد ہونے کے باعث گاؤں سپل بانڈئی کے لوگ عبادت کے لیے اسی مسجد میں آتے ہیں۔ ایک مقامی شخص عزیز خان نے بتایا کہ علاقے میں نمایاں حیثیت کی حامل یہ مسجد لوگوں میں اخوت و یگانگت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
عزیز خان نے مزید بتایا:’’مسجد کی خاص بات پرانا فن تعمیر ہے، جو سوات کے علاوہ کسی اور علاقے میں نہیں۔ اسے تین سو پندرہ سال پہلے ہمارے آباؤ اجداد، جن میں اخوند درویزہ بابا نمایاں ہیں، کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ ابتدا میں یہ مسجد صرف ایک کمرے پر مشتمل ہوتی تھی، جسے بعد ازاں مختلف ادوار میں وسعت دی جاتی رہی۔‘‘
سپل بانڈئی کی اس تاریخی مسجد میں لکڑی پر کندہ کاری کا کام نہایت مہارت اور عمدہ طریقے سے کیا گیا ہے۔ مسجد کے ستونوں، دروازوں اور محراب کو سوات کے روایتی نقش و نگار سے سجایا گیا ہے، جسے سواتی اسٹائل کہا جاتا ہے۔ مسجد کی تعمیر میں پتھر، گارے اور لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ دیار، بنڑیا، چھیڑ اور دیگر اقسام کی نادر لکڑی تعمیراتی کام میں استعمال کی گئی ہے جبکہ دیار اور بنڑیا کی لکڑی پر کندہ کاری کا کام کیا گیا ہے، جو یہاں کے تاریخی اور تہذیبی ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔ گاؤں کے رہائشی مجید خان کے مطابق اس میں چھ قسم کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ دیار کی لکڑی پر جو کندہ کاری کی گئی ہے، وہ تین سو پندرہ سال سے اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔
لکڑی اور پتھر پر کندہ کاری کا قدیم فن
سوات میں پتھروں اور لکڑیوں پر کندہ کاری کا فن صدیوں پرانا ہے۔ سن سترہ سو عیسوی سے بیسویں صدی تک اس ہنر کو مزید تقویت ملی۔ سوات کے رہائشی کندہ کار ناصر شین کا کہنا ہے کہ سوات کی کندہ کاری پوری دنیا میں اپنا الگ مقام رکھتی ہے:’’سوات میں گندھارا آرٹ یا پھر لکڑی پر کندہ کاری کی صورت میں بے شمار فنی نمونے موجود ہیں، جو اس علاقے کے لیے بے پناہ اہمیت کے حامل ثقافتی ورثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ پرانے زمانے میں موسمی اثرات کے پیش نظر آبادیوں کی اونچائی کم رکھی جاتی تھی تاکہ توانائی کی بچت کی جا سکے۔ دیہاتی مکانات میں پتھر اور گارے کا استعمال ہوتا تھا جبکہ لکڑی کے بڑے بڑے ستون عمارتوں کی مضبوطی کے لیے ہوتے تھے۔‘‘
سوات میں شورش کے دوران یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ کہیں یہ علاقہ اپنے تاریخی اور تہذیبی ورثوں سے محروم نہ ہو جائے۔ لوگوں کی عمومی غفلت کے باعث سپل بانڈئی کی تاریخی مسجد بھی اپنا مقام کھوتی جا رہی تھی۔ ایسے میں ہالینڈ کے ایک ادارے پرنس کلاؤس فنڈ کی مدد حاصل کی گئی۔
قدیم ثقافتی اور تہذیبی ورثے کی حفاظت کی ضرورت
پرنس کلاؤس فنڈ دنیا بھر میں تاریخی ورثوں کی حفاظت اور اس کی دیکھ بھال کے لیے کام کر تا ہے۔ اس ادارے کے تعاون سے سوات شرکتی کونسل (ایس پی سی) نامی ایک تنظیم نے شوکت ایسوسی ایٹس کے ساتھ مل کر مسجد کی حالت بر قرار رکھنے کا بیڑا اُٹھایا اور بہت کم عرصے میں مسجد کی تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا۔
سوات شرکتی کونسل کے سربراہ محمد روشن کے مطابق اُن کی کوشش ہے کہ سوات کے تاریخی ورثے کو محفوظ رکھا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو اپنی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں معلومات حاصل ہوں:’’پرنس کلاؤس فنڈ نامی ادارہ اس میں ہمارے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ ہم نے پہلی فرصت میں سپل بانڈئی کی مسجد کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے کام شروع کیا، جس میں علاقے کے لوگوں نے بھی ہمارے ساتھ تعاون کیا، مسجد میں توسیع کی گئی اور یہ خیال رکھا گیا کہ مسجد کی پرانی حالت برقرار رہے۔‘‘
تعمیر و توسیع اور تزئین و آرائش کے بعد سپل بانڈئی کی تاریخی مسجد کو نمازیوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف علاقوں کے لوگ مسجد کو دیکھنے اور وہاں پر عبادت کے لیے آتے ہیں۔