سوات کے باشندے ’فوج اور طالبان دونوں‘ سے ناراض کیوں ہیں؟
14 اکتوبر 2022ایک وقت تھا کہ جب پاکستان کے حسین ترین مقامات میں سے ایک سوات کی وادی طالبان کے زیر قبضہ تھی، جنہوں نے وہاں جابرانہ اقدامات کے نفاذ کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم پر بھی مکمل پابندی لگا دی تھی۔ سوات کا علاقہ جس کی سرحد پڑوسی ملک افغانستان سے بھی ملتی ہے، اب شاید بہتر طور پر نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
ایک دہائی قبل جب ملالہ پندرہ برس کی تھیں، تو طالبان نے انہیں گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔ سوات میں خواتین کے تعلیم کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والی ملالہ یوسف زئی طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف ایک توانا آواز تھیں۔ طالبان نے سن دو ہزار بارہ میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملالہ کو سیکولرزم کو فروغ دینے کی پاداش میں حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
سوات کی وادی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ایک مضبوط گڑھ رہی ہے۔ پاکستانی طالبان کا اٖفغان طالبان سے براہ راست تو کوئی تعلق نہیں مگر وہ ایک ہی جیسے نظریات رکھتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے سوات سے خاتمے کے لیے پاکستانی فوج نے وہاں سن دو ہزار نو میں ایک بڑا فوجی آپریشن بھی کیا تھا۔
’طالبان کی واپسی‘
سوات میں پشتون قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتیں حکومت پر طالبان کے ساتھ خفیہ مذاکرات کرنے کا الزام لگا رہی ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ یہ صورت حال سوات کو دوبارہ دہشت گردی کا شکار بنا سکتی ہے۔ پاکستان میں بہت سے شہری حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مخالف ہیں۔ ٹی ٹی پی نے سن دو ہزار چودہ میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کر کے ایک سو بتیس کم سن طلبا کو ہلاک کر دیا تھا۔
حکومت طالبان کی سوات میں قابل ذکر تعداد میں موجودگی کے حالیہ خدشات کو مسترد کرتی ہے۔ تاہم گزشتہ برس مشتبہ عکسریت پسندوں کی طرف سے پولیس پر حملے کے بعد ان قیاس آرائیوں میں تیزی آ گئی تھی کہ سوات میں ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کی خواہش مند ٹی ٹی پی کی اس علاقے میں واپسی ہو گئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ طالبان نے گزشتہ ماہ ستمبر میں کیے گئے ایک بم دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی، جس میں ایک حکومت نواز مقامی ملیشیا کے کمانڈر ادریس خان دو پولیس اہلکاروں، دو ذاتی محافظوں اور تین مزدوروں سمیت مارے گئے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک ہفتہ قبل سوات میں ایک اسکول وین پر حملے کے بعد لوگوں نے علاقے میں وسیع پیمانے پر مظاہرے شروع کر دیے تھے۔ ان میں سے ایک احتجاج تو چالیس گھنٹے سے بھی زائد تک جاری رہا تھا۔ یہ حملہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب ملالہ یوسف زئی نے پاکستانی سیلاب زدگان سے ہمدردی کے لیے صوبہ سندھ کا دورہ کیا۔
ناراضی کے اسباب
سوات کے علاقے مٹہ کی رہائشی چھبیس سالہ مروت سلیم کا کہنا ہے کہ لوگ حکومت کی جانب سے کوئی ایکشن نہ لیے جانے کی وجہ سے شدید غصے میں ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ یا تو ان کے لیڈر طالبان کی حمایت کر رہے ہیں یا پھر وہ ان سے خوف زدہ ہیں اور شاید اسی وجہ سے حکومت ان عسکریت پسندوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی عدم فعالیت نے خاص طور پر خواتین میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ مروت سلیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے نفسیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کر رکھی ہے تاہم انہیں خدشہ ہے کہ اگر طالبان کی واپسی ہو گئی تو ان کی بہنیں اور کزن اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ماضی میں لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنا پڑے تھے اور حکومت نے ان کی مدد نہیں کی تھی۔ اب ایک بار پھر حکومت عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں سے نظریں چرا رہی ہے اور اسی لیے عوام حکومت سے ناراض اور ناخوش ہیں۔‘‘
پینتالیس سالہ بی بی حسینہ سوات کے ایک مقامی ہسپتال میں کام کرتی ہیں۔ اس وادی میں ایک اسکول وین پر حالیہ حملے نے ماضی کی بھیانک یادیں تازہ کر دیں اور عام شہری ایک بار پھر شدید خوف کا شکار ہو گئے۔ بی بی حسینہ نے بتایا، ''سوات کے لوگوں نے اس لیے احتجاج کیا کہ وہ اپنے بچوں، خاندانوں، کاروبار اور اپنی سلامتی کے بارے میں پریشان ہیں۔‘‘
دھوکے کا احساس
سن دو ہزار نو کے فوجی آپریشن کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد افراد کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ملک کے مخلتف حصوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ انہیں اپنے گھروں کو وا پسی کی اجازت چند ماہ بعد فوجی کارروائی کے خاتمے کے اعلان کے بعد دی گئی تھی۔
مٹہ ہی کے ایک رہائشی ادریس علی شاہ کا کہنا تھا کہ عوام اس لیے بھی غصے میں ہیں کہ انہیں متضاد اطلاعات دی جا رہی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ادریس شاہ نے کہا کہ پہلے لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ اس علاقے سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کر دیا گیا تھا لیکن پھر عوام نے ٹارگٹ کلنگ کی ایک ایسی لہر دیکھی، جس میں آٹھ سو سے زائد سیاسی اور امن کے خواہش مند کارکنوں کو قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ (طالبان) سفاک قاتل ہیں اور اب عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ہی ان سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد بھتہ خوری اور عسکریت پسندوں کی موجودگی سے متعلق تمام اطلاعات کو نظر انداز کیا گیا، تو یوں حکومت، ریاست اور فوج سے مایوسی ایک قدرتی بات ہے۔‘‘
نقصان کیا ہو سکتا ہے؟
سن دو ہزار نو میں فوجی آپریشن کے اختتام کے بعد سے سوات میں کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ ساتھ ہی مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں نے بھی اس خوبصورت وادی کی سیر کے لیے آنا شروع کر دیا ہے۔ اس صورتحال سے لوگوں کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
سوات کے ایک مقامی باشندے اور پشاور یونیورسٹی کے علاقائی اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کے مطابق لوگوں نے سوات میں اپنے اپنے کاروبار، مکانات، مارکیٹوں اور دیگر جگہوں کی تعمیر میں کروڑوں بلکہ ممکنہ طور پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان کے بقول اب یہ سب کچھ خطرے میں ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بظاہر حکومت ان عسکریت پسندوں کو پکڑنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی، جو موبائل فون پر دھمکیاں دے کر لوگوں سے بھتہ طلب کر رہے ہیں۔ سرفراز خان کے مطابق، ''صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اراکین پارلیمان تک نے بھی بھتہ دیا ہے اور حکومت نے پھر بھی تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا۔‘‘
گمراہ کن دعوے
پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے نے گزشتہ ماہ اس بات کی تصدیق کی تھی کہ سوات اور دیر کے درمیان 'پہاڑی چوٹیوں پر چند مسلح افراد کی نقل و حرکت‘ کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس ادارے نے اس بات کو سختی سے مسترد کر دیا تھا کہ یہ مسلح افراد بے قابو اور بے خطر گھوم رہے تھے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ''بظاہر یہ چند افراد اپنے علاقوں میں دوبارہ آباد ہونے کی غرض سے افغانستان کے راستے یہاں گھس آئے ہیں۔ ان کی پہاڑوں پر محدود موجودگی اور نقل وحرکت پر قریبی نظر رکھی جا رہی ہے۔‘‘
اس بیان میں کہا گیا کہ عکسریت پسندوں کی علاقے میں موجودگی کو سوشل میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور یہ کہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ارکان افغانستان میں افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے خود کو مضبوط محسوس کر رہے ہیں۔
پشتون بہار
چند تجزیہ کارو ں کا خیال ہے کہ پشتون قوم پرست پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ سوات میں جاری مظاہروں کی روح رواں جنگ مخالف پشتون تحفظ موومنٹ یا پی ٹی ایم ہے۔ پاکستانی حکام پی ٹی ایم سمیت لبرل پشتون گروپوں کو کافی عرصے سے ملک میں عدم استحکام پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراتے آئے ہیں۔
سوات سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی عزیز اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ پروپیگنڈا ہے کہ فوج یا سکیورٹی ادارے طالبان کو واپس لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''فوج نے سوات اور ملک کے دیگر حصوں سے عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اگر آج سوات میں امن ہے، تو یہ صرف فوج کی وجہ سے ہے۔ فوج کے خلاف پروپیگنڈا پھیلایا جا رہا ہے، جو قابل مذمت ہے۔‘‘
’حکومت سے تو کوئی ناراض نہیں‘
عزیز اللہ خان نے اس بات کو بھی مسترد کیا کہ سوات کے عوام حکومت سے تنگ آ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''میرا تعلق صوبائی حکومت سے ہے اور میں پوری وادی یں گھومتا ہوں۔ میں نے تو فوج یا حکومت کے خلاف کوئی ناراضی نہیں دیکھی۔‘‘ انہوں نے سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی سے متعلق دعووں کو بھی مسترد کیا۔
رکن صوبائی اسمبلی عزیز اللہ خان نے کہا، ''میں آپ کو پوری وادی سوات میں لے جاتا ہوں اور آپ کو ایک بھی عسکریت پسند نظر نہیں آئے گا۔ یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔ کچھ جرائم پیشہ افراد طالبان کا نام استعمال کر کے بھتہ خوری کے لیے فون کالیں کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے اور پی ٹی آئی کے کسی لیڈر یا قانون ساز نے کوئی بھتہ نہیں دیا۔‘‘
ش ر / م م (ایس خان)