سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد: حکومتی حکم اور اس پر ردعمل
14 مارچ 2017جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم نے حکم دیا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر موجود ایسی تمام ویب سائٹس، پیجز اور اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا جائے، جن میں پیغمبر اسلام سے متعلق توہین آمیز مواد موجود ہے، جو مسلمانوں کو اشتعال دلانے کا سبب بنتا ہے اور جس تک پاکستانی آن لائن صارفین کو اب تک رسائی حاصل ہے۔
وزیر اعظم کے دفتر کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق نواز شریف کا کہنا تھا، ’’پیغمبر اسلام سے محبت مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد ہے۔ ہر قسم کا گستاخانہ مواد اور اس کی تشہیر (پاکستانی قانون کے مطابق )جرم ہے، جسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے یہ اعلان اسلام آباد کی ایک عدالت کے اس فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں ایک جج نے کہا تھا کہ اگر ایک سوشل میڈیا نیٹ ورک کے طور پر فیس بک سے توہین آمیز مواد نہ ہٹایا گیا، تو پاکستان میں فیس بک کو بلاک کر دیا جائے گا۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ملا جلا ردعمل دیکھا جا رہا ہے۔ کئی پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر ملکی حکومت کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ مہرین سبطین نامی ایک خاتون صارف کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایسے اقدامات پہلے ہی کرنا چاہیے تھے اور اب بھی صرف اعلان کرنے کے بجائے عملی اقدامات پر توجہ دی جائے۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ شریف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اندازہ ہی نہیں کہ ایسے اقدامات ملک کو تیس سال پیچھے لے جائیں گے اور مستقبل میں تمام مسائل توہین مذہب کے قانون کو (غلط طریقے سے) استعمال کرتے ہوئے نمٹائے جائیں گے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی توہین مذہب کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی گئی ہے۔ نبیل نبی نامی ایک ٹوئٹر صارف نے وفاقی ایوان زیریں کی اس قرارداد کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ یہ قانون توہین رسالت یا توہین مذہب کے واقعات کو روکنے کے لیے نہیں بنائے جا رہے بلکہ ان کا مقصد ’بادشاہ نواز شریف‘ کی توہین روکنا ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی صارفین نے ایسے خدشات کا اظہار کیا کہ توہین مذہب اور توہین رسالت کی آڑ میں حکومت ان قوانین کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 1980ء کی دہائی سے توہین مذہب سے متعلق قوانین نافذ ہیں جن کے مطابق اسلام، پیغمبر اسلام، اور مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی توہین کی صورت میں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ یہ قوانین اس لیے متنازعہ ہیں کہ عام طور پر پاکستانی معاشرے میں ان کا استعمال مذہبی اور ذاتی دشمنیوں میں بدلہ لینے کے لیے کیا جاتا ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق پاکستان میں اب تک پچاس سے زائد ایسے شہری، جن پر کسی نہ کسی فرد، گروہ یا طبقے کی طرف سے توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے تھے، کسی بھی عدالت میں پیش کیے جانے سے پہلے ہی درجنوں مختلف واقعات میں مشتعل شہریوں کے بپھرے ہوئے ہجوموں کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں، وہ بھی اس طرح کہ قتل کے بعد کسی کی لاش کو روندا گیا تو کسی کو زندہ جلا دیا گیا۔