1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہسعودی عرب

سوشل میڈیا پوسٹس: سعودی استاد کو 20 برس قید کی سزا

10 جولائی 2024

ہیومن رائٹس واچ اور مذکورہ شخص کے بھائی نے منگل نو جولائی کو کہا کہ سوشل میڈیا پر تنقیدی پوسٹس کرنے پر سعودی عرب میں ایک استاد کو 20 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4i6Z2
Türkei I Konsulat Saudi Arabien in Istanbul
تصویر: Yasin Akgul/AFP/Getty Images

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 47 سالہ اسد الغامدی کو نومبر 2022 میں سعودی شہر جدہ میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی اس تنظیم نے کہا کہ انہیں 29 مئی کو سعودی عرب کی خصوصی فوجداری عدالت نے مجرم قرار دیا تھا۔ یہ عدالت 2008ء میں دہشت گردی کے ملزموں پر مقدمہ چلانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔

ہیومن رائٹس واچ نے اسد الغامدی کو سنائی گئی قید کی سزا کو ''ملک میں اظہار رائے کی آزادی کے خلاف بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن میں ایک اور اضافہ‘‘ قرار دیا۔

سعودی سرحدی محافظوں نے سینکڑوں تارکین وطن کو ہلاک کیا، رپورٹ

سعودی عرب: مناہل العتیبی کو 11 برس قید کی سزا

ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے دیکھی گئی  عدالتی دستاویزات کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ غامدی پر ''بادشاہ اور ولی عہدکے مذہب اور انصاف کو چیلنج کرنے‘‘ اور ’’جھوٹی اور بدنیتی پر مبنی خبریں اور افواہیں شائع کرنے‘‘ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

ٹوئٹر کی علامتی تصویر
اسد کے بھائی سعید نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا، ''الزامات من مانے اور غیر منصفانہ ہیں کیونکہ یہ سب ٹویٹس پر مبنی ہیں۔‘‘تصویر: Muhammed Selim Korkutata/AA/picture alliance

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ان کے خلاف ثبوت کے طور پر استعمال ہونے والی پوسٹس میں وژن 2030 اصلاحاتی ایجنڈے سے متعلق منصوبوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

 ایک پوسٹ میں انسانی حقوق کی معروف سعودی شخصیت عبداللہ الحمد کے بارے میں افسوس کا اظہار کیا گیا جو اپنی سرگرمی سے متعلق الزامات میں سزا پانے کے بعد جیل میں انتقال کر گئے تھے۔

اسد الغامدی پر بھی وہی الزامات عائد ہیں جو ان کے بھائی محمد پر عائد کیے گئے۔ محمد نے سوشل میڈیا پر حکومت کی مبینہ بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی تھی۔ انہیں گزشتہ برس ان کی سوشل میڈیا سرگرمی کی بنیاد پر موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

غامدی کے تیسرے بھائی سعید نے جو ایک اسلامی اسکالر ہیں اور برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، سعودی حکام کے حالیہ اقدام کی مذمت کی ہے۔

سعید نے اسد کے خلاف فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا، ''الزامات من مانے اور غیر منصفانہ ہیں کیونکہ یہ سب ٹویٹس پر مبنی ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ شاید اس سب کا ہدف وہی ہوں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق گزشتہ دو برسوں کے دورانسعودی عدلیہ نے درجنوں افراد کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر مجرم قرار دیا ہے اور طویل قید کی سزائیں سنائی ہیں۔

29 سالہ بلاگر اور فٹنس انسٹرکٹر مناہل العتیبی
29 سالہ بلاگر اور فٹنس انسٹرکٹر مناہل العتیبی کو نومبر 2022 میں سعودی مردوں کی سرپرستی سے متعلق قوانین اور خواتین کے لیے جسم کو ڈھانپنے والا عبایا پہننے کی شرائط کو چیلنج کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔تصویر: FAYEZ NURELDINE/AFP

 انہی میں نورہ القحطانی بھی شامل ہیں، جنہیں 2022 میں حکومت پر تنقید کرنے والی سوشل میڈیا پوسٹس پر 45 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس سنی اکثریتی ریاست میں شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے والی سلمیٰ الشہاب کو 2022 میں 34 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا انہوں نے اپنے ٹویٹس کے ذریعے مملکت میں 'امن عامہ کو خراب کرنے‘ کی کوشش کرنے والے مخالفین کی مدد کی تھی۔

29 سالہ بلاگر اور فٹنس انسٹرکٹر مناہل العتیبی کو نومبر 2022 میں سعودی مردوں کی سرپرستی سے متعلق قوانین اور خواتین کے لیے جسم کو ڈھانپنے والا عبایا پہننے کی شرائط کو چیلنج کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

خصوصی فوجداری عدالت نے رواں برس نو جنوری کو انہیں 11 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ تاہم اس سزا کا علم تب ہوا جب اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی طرف سے اس بابت سوال اٹھا گیا۔

کیا عبایا اسلامی لباس ہے؟

ا ب ا/ش ر (اے ایف پی)