سولر ٹیکنالوجیِ: پاکستانی محقق کے دو عالمی ریکارڈ
27 مارچ 2022سائنسدان اور محققین سولر ٹیکنالوجی میں جدت کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر یاسر صدیقی نے کوریائی سائنسدانوں کی ٹیم کے ساتھ تحقیق کرتے ہوئے ایسے سولر سیل ڈیزائن کیے، جنہوں نے افادیت میں دو نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔
ڈاکٹر یاسر کی ریکارڈ ساز تحقیق کیا ہے؟
ڈاکٹر یاسر صدیقی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ سولر سیل کی ایفی شینسی یا افادیت کیا ہوتی ہے؟ سورج کی جو روشنی سولر سیل پر پڑتی ہے اور مختلف وجوہات کی بنا پر وہ واپس پلٹ جاتی اور اس کا بہت تھوڑا حصہ توانائی میں ڈھل پاتا ہے۔ ڈاکٹر یاسر نے سلیکون سے بنے ایک روایتی سولر سیل کی تیاری کے دوران اس میں ایک خاص محلول شامل کیا، جس سے سیل کی ایفی شینسی یا افادیت نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ بعد ازاں جب اِنڈیئم سلفو سیلینائیڈ کے اوپر پروسکائٹ کی پتلی تہہ چڑھائی گئی تو سیل کی ایفی شینسی مزید بڑھ گئی اور اس نے بھی افادیت میں ایک نیا ریکارڈ بنایا۔
ڈاکٹر یاسر کے مطابق روایتی سلیکون سولر سیل کی افادیت عموما 15 سے 20 فیصد ہوتی ہے جبکہ مرتکز آئینوں والے سولر سیل کی افادیت 41 فیصد تک ہو سکتی ہے مگراس میں سورج کی روشنی کو ایک مقام پر اکھٹا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر یاسر کی ٹیم کے تیار کردہ شمسی سیل ٹینڈم یا سینڈوچ قسم کے ہیں، جو اب تک تیار کردہ سب سے مؤثر سولر سیل سمجھے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر یاسر کون ہیں؟
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر یاسر صدیقی اس وقت جنوبی کوریا کی سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف انرجی ریسرچ سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اپنے سپر وائزر ڈاکٹر سیجن آہن کی نگرانی میں ان شمسی سیلز کے ڈیزائن اور تیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں شمسی توانائی کتنی اہم ہے؟
امریکی ڈیپارٹمنٹ آف انرجی کی ایک رپورٹ کے مطابق بغیر کسی رکاوٹ کے روزانہ تقریبا 1 لاکھ 73 ہزار ٹیرا واٹ سورج کی توانائی زمین سے ٹکراتی ہے، جو دنیا بھر میں زیر استعمال توانائی کی مقدار سے 10 گنا زیادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق شمسی توانائی کی پیداوار کے لیے پاکستان دنیا بھر میں تیسرا موزوں ترین ملک سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں سال میں 315 دن دھوپ چمکتی ہے۔ مگر پاکستان شمسی توانائی پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں ابھی 44 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستانی اقدامات
پاکستان نے نومبر سن 2021 میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس بند کر دینے اور مزید ایسے منصوبوں پر کام نہ کرنے کا عندیہ تو دیا مگر ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس کی جگہ توانائی کے کن متبادل ذرائع کو فوقیت دی جائے گی؟
اس حوالے سے امریکی ڈیپارٹمنٹ آف انرجی سے وابستہ پاکستانی پی ایچ ڈی سکالر سارا عاقب نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سن 2019 تک پاکستان میں زیر استعمال کل توانائی کا 51 فیصد فوسل فیولز سے حاصل کیا جا رہا تھا جبکہ 2021ء میں حکومت نے کاربن کے استعمال میں 50 فیصد کمی کا اعلان کیا۔
سارا عاقب کے مطابق یہ اعدادو شمار واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کے لیے کاربن نیوٹرل ہونے کے اتنے بڑے ہدف تک پہنچنا آسان نہیں ہو گا۔ اس کا انحصار صنعتوں اور خصوصا گھروں میں استعمال ہونے والی بجلی کے انفراسکٹرکچر پر ہے۔
سولر پینلز کے استعمال کو بڑھانا ضروری ہے
پاکستان میں بجلی کی کل پیداوار کا 49 فیصد حصہ گھروں میں استعمال ہوتا ہے۔ لہذا اگر گھروں میں سولر پینلز کے استعمال کو بڑھایا جائے یا نئی تعمیر ہونے والی کمرشل عمارتوں کو مخصوص ڈیزائن سے تیار کر کے شمسی توانائی پر آپریٹ کیا جائے تو توانائی کے بحران میں کمی کے ساتھ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کو لگام ڈالنے میں بھی مدد ملے گی۔
سارا کا کہنا کہ اگرچہ سولر پینل کی انسٹالیشن پر کافی خرچا آتا ہے، جو پاکستان میں متوسط اور غریب طبقے کے لیے برداشت کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ لیکن یہاں یہ بات بھی مد نظر رکھنے ہو گی کہ مین گرڈ سے حاصل ہونے والی روایتی بجلی کا بل ہر ماہ بھرنا پڑتا ہے، اس کی فی یونٹ قیمت میں حکومت آئے روز اضافہ کرتی رہتی ہے،''جبکہ لوڈ شیڈنگ کا درد ِسر اور یو پی ایس کا خرچہ الگ سے ہے۔ لہذا دور رس فوائد اور ماحول کی بہتری کے لیے گھریلو استعمال میں شمسی توانائی کو بڑھانا وقت کی ضرورت ہے۔‘‘
پاکستان میں شمسی توانائی سیکٹر کو کن مسائل کا سامنا ہے؟
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں شمسی توانائی کا شعبہ 26 فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کر رہا ہے۔ یہ امر یقینا باعثِ حیرت ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان میں یہ گروتھ 50 فیصد نوٹ کی گئی، جس کی ایک بڑی وجہ سولر پینل اور انورٹرز پر حکومت کی جانب سے درآمدی ڈیوٹی پر چھوٹ کا اعلان تھا۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس دوران تقریبا 120 ارب روپے کے سولر پینل در آمد کیے گئے، جن سے 2380 میگا واٹ بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔
مگر 2022ء کے اوائل میں اپنی ساری کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے حکومت نے منی بجٹ میں شمسی توانائی سیکٹر پر 20 فیصد اضافی ٹیکس لگا دیا۔ پاکستان میں شمسی توانائی پر کام کرنے والی کمپنیوں کے مطابق آئی ایم ایف کے دباؤ پر کیے جانے والے اس غلط فیصلے نے پاکستان میں شمسی توانائی سیکٹر کی ترقی کا از خود گلا گھونٹ دیا ہے۔
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث فی الوقت دنیا بھر کے ممالک 2050ء تک کاربن نیوٹرل کے اہداف حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسے میں شمسی توانائی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2019ء تک دنیا بھر میں سولر پینلز کی افادیت 16 فیصد تھی، جو محض تین برسوں میں بڑھ کر 26 فیصد ہو گئی ہے۔