سوچی مزید 18 ماہ کے لئے نظر بند، عدالت کا حکم
11 اگست 2009دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں، جہاں حکومت مخالف رہنماؤں کو نظربند یا قید میں رکھنا معمول کی بات ہے۔ ان ممالک میں میانمار بھی شامل ہے، جہاں کی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی نےگزشتہ 19 میں سے تقریباً 14 سال نظربندی یا قید میں گزارے ہیں۔ ینگون کی ایک عدالت نے آج ان پر نظر بندی کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں چلائے جانے والے ایک مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔
ینگون کی عدالت نے آنگ سان سوچی کو قصوروار قرار دیتے ہوئے ان کو مزید 18 ماہ نظر بندی کی سزا سنائی ہے۔ عدالت کے مطابق سوچی نے داخلی سلامتی کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس فیصلے کے بعد سوچی اب آئندہ برس میانمار میں ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔ میانمار کی اپوزیشن کے جلا وطن ترجمان سوئے آنگ نے عدالت کے اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’یہ صورتحال بہت مایوس کن ہے کیونکہ سوچی کے مقدمے کا فیصلہ میانمار کی عوام کی خواہشات کو نظراندازکرتے ہوئے دیا گیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی براداری فوجی حکومت کے خلاف بیانات دینے کے بجائے اقدامات کرے، ٹھوس اقدامات۔‘‘
آج ینگون کی خصوصی عدالت نے آنگ سان سوچی اور ان کے دو ملازمین کو ایک غیر ملکی سے خفیہ طور پر ملنے کے جرم میں پہلے تین سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔ اِس کے فوراً بعد مقدمے کی سماعت روک دی گئی اور ایک قلیل وقفے کے بعد میانمار کے وزیر داخلہ ماؤنگ اوو نے اس سزا میں کمی کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی حکومت کے سربراہ جنرل تھان شوے کے ذاتی احکامات پر آنگ سان سوچی کی سزا میں نصف کمی کرتے ہوئے اسے نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
میانمار کی اپوزیشن رہنما کو مزید 18 ماہ نظر بند رکھنے کا فیصلہ سامنے آتے ہی عالمی برادری کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ یورپی یونین کے ایک بیان میں کہا گیا کہ یورپی ممالک نے ینگون حکومت کے خلاف پابندیوں کی جو پالیسی اپنائی ہوئی ہے، اُسے جار ی رکھا جائے گا۔ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے اس فیصلے پر افسوس اور غم و غصے کا اظہار کیا۔ انہوں نےکہا کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے، جس کا مقصد سوچی کو آئندہ انتخابات سے دور رکھنا ہے۔ آسٹریلیا نے فوجی حکومت سے فوری طور پر سوچی کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی تجزیہ نگارPavin Chachavanpunpong کے مطابق فوجی حکومت کے اس اقدام کا مقصد عالمی برادری کا ردعمل کا اندازہ لگانا ہے۔ ان کے بقول ’’عالمی برادری کا ردعمل معلوم کرنے کے علاو ہ اس اقدام کا کوئی اور مقصد نہیں ہو سکتا کیونکہ ینگون حکو مت کو خود بھی نہیں معلوم کہ انہیں آنگ سان سوچی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔‘‘
آنگ سان سوچی کے ساتھ ملاقات کرنے کے جرم میں امریکی باشندے کو سات سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ 64 سالہ سوچی کے خلاف عدالت کا یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے۔ عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد آنگ سان سوچی نے اس فیصلے پر طنزیہ انداز میں عدالت کا شکریہ ادا کیا۔
رپورٹ عدنان اسحاق
ادارت امجد علی