سوچی کی سلامتی کونسل کے بیان پر تنقید
8 نومبر 2017اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے پیر کے روز جاری کردہ بیان میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار سے ’مستقبل میں مزید فوجی طاقت استعمال نہ کرنے‘ مطالبہ کیا تھا۔ سکیورٹی کونسل نے ’راکھین ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹوں پر‘ بھی اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
سوچی کا راکھین کے بحران زدہ حصے کا پہلا دورہ
میانمار: راکھین میں اسکول دوبارہ کھول دیے گئے
سکیورٹی کونسل کے ان بیانات کے جواب میں میانمار کی خاتون حکمران آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ اس معاملے کو بنگلہ دیش اور میانمار کے مابین دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ نے اس نکتے کو نظر انداز کیا ہے۔
گزشتہ دو برس سے میانمار میں برسر اقتدار سوچی کا مزید کہنا تھا، ’’سکیورٹی کونسل کے تازہ بیانات بنگلہ دیش اور میانمار کے مابین جاری ان مذاکرات کو ممکنہ طور پر شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘‘
میانمار کے حکام کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش سے چھ لاکھ روہنگیا مسلمان مہاجرین کی واپسی کے لیے جاری مذاکرات کا سلسلہ تعمیری انداز میں جاری ہے اور اس ضمن میں بنگلہ دیشی وزیر خارجہ ابوالحسن محمد علی کو سولہ اور سترہ نومبر کو میانمار کے دورے کی دعوت دی گئی ہے۔
تاہم بنگلہ دیشی وزیر خارجہ کا دورہ میانمار ممکنہ طور پر تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے بنگلہ دیشی حکام نے سوچی کے ترجمان کے اس بیان پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا تھا جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ بنگلہ دیش مہاجرین کی واپسی کے لیے جاری مذاکرات میں تاخیری حربے اس لیے استعمال کر رہا ہے تاکہ ڈھاکا حکومت پہلے ان مہاجرین کی مدد کرنے کے ضمن میں عالمی برادری سے لاکھوں ڈالر مدد حاصل کر سکے۔
اتوار کے روز ڈھاکا میں دولت مشترکہ کے ممالک سے تعلق رکھنے والے پارلیمانی ارکان کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے بین الاقوامی برادری سے میانمار پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو میانمار کا دورہ بھی کر رہے ہیں۔ واشنگٹن حکومت میانمار کے خلاف عسکری پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ بھی دے چکی ہے۔
میانمار نے روہنگیا مہاجرین کے بحران سے متعلق سکیورٹی کونسل میں چین کا نام لیے بغیر اس کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سکیورٹی کونسل کے کچھ رکن ممالک کی جانب سے غیر جانبداری کے اصول کی پاسداری قابل ستائش ہے‘۔