1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوڈانی صدر عمر البشیر کے وارنٹ گرفتاری

اووٹے شيفر / شہاب احمد صدیقی5 مارچ 2009

عالمی تعزيری عدالت نے سوڈان کے صدر البشير کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کيا ہے ۔ عالمی عدالت کے اس فيصلے سے صورتحال کو بہتر بنانے ميں مدد نہيں مل سکتی۔ اس بارے ميں اووٹے شيفرکا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/H6Eg
سوڈانی صدر عمرالبشیر کے حق میں مظاہرے کا ایک منظرتصویر: AP

سوڈان کے دارالحکومت خرطوم ميں ہزاروں افراد نے بدھ اورآج جمعرات کو صدرعمرالبشير کے لئے عالمی تعزيری عدالت کی جانب سے جاری کئے جانےوالے وارنٹ گرفتاری کے خلاف مظاہرے کئے۔

Omar Hassan Ahmad al-Bashir Präsident Sudan
عمر البشیر نے عالمی عدالت کے اس فیصلے کو مسترد کرنے کا اعلان کیا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

عدالت نے سوڈانی صدر کے خلاف يہ گرفتاری وارنٹ بدھ کوجاری کيا تھا۔ يہ پہلا موقعہ ہے کہ عدالت نے ايک برسراقتدارصدرکی گرفتاری کا وارنٹ جاری کيا ہے۔ تقريبا تين درجن ملکوں نے، جن ميں افريقی ملکوں کی اکثريت ہے، ہالينڈ ميں دی ہيگ کی عالمی تعزيری عدالت کو تسليم کرنے سے انکار کی دھمکی دی ہے۔

ايسے ملکوں کی فہرست ميں اضافہ ہوگا جو عالمی تعزيری عدالت کی کسی قسم کے تحفظات کے بغير حمايت نہیں کرتے۔ اب تک ان ميں امريکہ، روس، چنن، پاکستان، بھارت، اسرائيل اورايران شامل ہيں ۔ اس کے علاوہ اس کا اثر سوڈان کے عوام پربھی پڑے گا۔

سوڈان اب تک دس عالمی امدادی تنظيموں کو ملک سے نکال چکا ہے۔ گرفتاری کا وارنٹ، امن کی تلاش کو مشکل تربنا دے گا۔ دارفور ميں ايک باغی گروپ نے وارنٹ گرفتاری کی بنياد پرامن مذاکرات ميں حصہ لینے سے انکار کرديا ہے۔

روانڈا، سابق يوگوسلاويہ يا جنوبی افريقہ کی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن قائم ہونے کے بعد ہی انصاف فراہم کيا جاسکتا ہے جہاں جنگ اورغارت گری کے خاتمے کے بعد ہی سياسی ذمہ داروں کا احتساب ہوسکا۔ اس ميں شک نہيں کہ البشيرقتل عام، انسانيت کے خلاف جرائم اورجنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہيں اوران سے اس کا حساب ليا جانا چاہئے ليکن، آخراس وقت کيوں اور کيا يہ سوڈان ميں جنگ اور تشدد کے خاتمے کے لئے صحيح طريقہ ہے۔

Sudanesische unterstützer vom Präsident Omar al-Bashir 2
سوڈانی صدر کے حق میں ہزاروں افراد نے مظاہرے کئےتصویر: AP

بہت سے دوسرے راستے ہوسکتے تھے، مثلا اقوام متحدہ کی سخت پابندياں اوراہم تجارتی ساتھيوں، خاص طور سے چين کی طرف سے سوڈان پر دباؤ۔ اس کے علاوہ مغربی ملک ابھی تک سوڈان کو کيوںاسلحہ دے رہے ہيں حالانکہ وہاں امن کی ضرورت ہے۔

سزا کا مخالف کوئی بھی نہيں ہے، نہ توعرب ممالک اورنہ ہی افريقی يونين، جواب گرفتاری کے وارنٹ پرتنقيد کررہے ہيں ليکن سوڈان جيسے، تنازعے کی لپيٹ ميں آئے ہوئے ملک ميں سزا پرعمل نہيں ہوسکتا۔ وہاں کئی علاقائی تنازعات برپا ہيں، سياسی ادارے کمزور ہيں اوراس سال وہاں اہم انتخابات ہونے والے ہيں۔ اس کے علاوہ يہ وارنٹ گرفتاری ايک ايسی عدالت نے جاری کيا ہے جو اس پرعملدرآمد کے لئے متعلقہ ملکوں کے تعاون کی محتاج ہے۔

دی ہيگ کی عالمی عدالت کے فيصلے سے نہ توانصاف مہيا ہوگا اورنہ ہی سوڈان میں امن قائم ہوسکے گا۔ اس وقت تعزيری عدالتی اقدام يقینا سياسی حل کو فروغ دينے کا موزوں طريقہ نہيں ہے۔