سویڈن میں افغان مہاجرین ہیروئن کی لت کا شکار ہوتے ہوئے
30 مئی 2017وسطی سویڈن کے ایک پارکنگ گیراج میں ہر جانب الٹیوں کی بدبو، بیئر کے خالے ڈبے اور المونیم کے پارچے دکھائی دے رہے ہیں، کیوں کہ سردی سے بچنے کے لیے یہاں پناہ لینے والے افغان تارکین وطن یہاں مقیم ہیں اور وہ طرح طرح کی منشیات استعمال کرتے ہیں۔
ایک 16 سالہ افغان تارک وطن مہدی گزشتہ برس ترک وطن کر کے سویڈن پہنچا اور یہاں پہنچنے کے بعد اس نے ہیروئن کا استعمال شروع کر دیا۔ اب وہ ہیروئن کا عادی ہو چکا ہے۔ اس نے کہا، ’’جب ہم کش کھینچتے ہیں، تو ہمیں کوئی غم نہیں رہتا اور مکمل سکون مل جاتا ہے۔‘‘
سویڈن کا یونیورسٹی ٹاؤن کہلانے والا شہر اُپسالا دارالحکومت اسٹاک ہوم کے شمال میں کوئی ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے اور یہاں 18 برس سے کم عمر کے قریب ایک ہزار تنہا تارکین وطن موجود ہیں، جن میں سے سو افغان تارکین وطن ایسے بھی ہیں، جو سیاسی پناہ کے لیے جمع کرائی گئی اپنی درخواستوں پر فیصلوں کے منتظر ہیں اور اب تک ہیروئن کے نشے کے عادی ہو چکے ہیں۔
سویڈش حکام تسلیم کرتے ہیں کہ تارکین وطن میں منشیات کے استعمال کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ملکی دارالحکومت اسٹاک ہوم میں بھی کم از کم ایک ہزار نوجوان تارکین وطن ایسے ہیں، جنہیں گزشتہ برس منشیات کی لت سے نجات کے لیے طبی امداد دینا پڑی۔ سویڈش طبی ذرائع ان مہاجرین کے آبائی ممالک کی تفصیلات ظاہر کیے بغیر بتاتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر نابالغ لڑکے تھے۔
سویڈن کی انسداد منشیات پولیس کے 38 سالہ سربراہ آندریس نِلسن اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سادہ لباس والے اہلکاروں کی ایک ٹیم کے ہمراہ اُپسالا کی سڑکوں پر ہیروئن کے عادی تارکین وطن کو تلاش کرتے ہیں اور پھر انہیں طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے۔ وہ شہر بھر میں کہیں بھی نوجوان لڑکوں کا کوئی مجمع دیکھتے ہیں، تو ان لڑکوں کی جیبوں کی تلاشی لے کر اور ان کی آنکھوں کی پتلیوں کا معائنہ کر کے یہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا ان میں سے کسی نے ہیروئن کا نشہ کر رکھا ہے یا نہیں۔
سویڈش حکام کی کوشش ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں، جن سے ان مہاجرین کو اپنے یا اپنے ارد گرد کے معاشرے کے لیے خطرات پیدا کرنے سے روکا جا سکے۔