سٹیم سیل : تعارف اور تحقیق
25 مارچ 2009تحقیقی اصطلاح میں سٹیم سیلز ایسے بنیادی خلیوں کو کہا جاتا ہےجو تقسیم در تقسیم کے ذریعے خصوصی خلیوں یا سیلز کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ سٹیم سیل رحم مادر میں فرٹیلائز ہونے والے فیٹس (Fetus) یا بنیادی خلیے جو بعد میں ایک مکمل جاندار بنتا ہے، سے اس کی نمو کے مختلف مراحل کے دوران حاصل کیاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مختلف بالغ ٹشوز یا بافتوں میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ سٹیم سیلز کوکہاں سے حاصل کیا گیا ہے اور ان سے کس طرح کے سیلز یا خلیے بنائے جاسکتے ہیں، اس بنیاد پر انہیں مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔
اسٹیم سیلز کی تین بنیادی اقسام میں سے پہلی قسم کو Totipotent سٹیم سیلز کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے سٹیم سیلز ہیں جن سے ہر طرح کے سیل بنائے جاسکتے ہیں اور جن میں پورا ایک عضو یا نظام بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ مادر رحم میں فرٹیلائز ہونے والا بیضہ اس پہلی قسم کا سٹیم سیل ہوتا ہے جس میں پورا ایک جاندار بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
دوسری قسم کے سٹیم سیلز Pluripotent کہلاتے ہیں۔ یہ ایسے سٹیم سیلز ہوتے ہیں جن سے تقریباتمام طرح کے سیلز یا خلیے بنائے جاسکتے ہیں لیکن ان سٹیم سیلز میں ایک پورا عضویا نظام بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ایمبریوسے اس کی نمو کے مراحل کے دوران حاصل کئے گئے سٹیم سیلز Pluripotent ہوتے ہیں۔ جب کہ تیسری قسم کے سٹیم سیلز کو Multipotent کہا جاتا ہے۔
ان سٹیم سیلز میں صرف چند طرح کے خلیے یا سیلز بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر بالغ یا Adult سٹیم سیلز جنہیں عضویاتی یعنی Organ یا ٹشو Specific سٹیم سیلز بھی کہا جاتا ہے Multipotent کے زُمرے میں آتے ہیں۔ یہ کسی خاص عضو یا ٹشومیں پائے جاتےہیں۔ اس طرح کے سٹیم سیلز کا کام اس عضو یا ٹشو میں کہ جس سے یہ تعلق رکھتے ہیں کسی بھی وجہ سے تباہ ہوجانے والےخلیوں کی کمی کو پورا کرنا ہوتا ہے۔
ایمبریونک سٹیم سیلز پر زیادہ تر اور بنیادی تحقیق چوہوں کے سٹیم سیلز پر کی گئی۔ لیکن 1998 کے بعد سے سائنسدان انسانی ایمبریو سے حاصل کردہ سٹیم سیلز کو لیبارٹری میں کلچر کرنے اور ان پر تحقیق کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کے بعد اس میدان میں تیزی سے ترقی دیکھنے میں آئی۔ مگر ایمبریونک سٹیم سیل تحقیق پر دنیا بھر میں مذہبی حلقوں کے علاوہ انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے شدید تنقید سامنے آئی۔ ایمبریونک سٹیم سیلز تحقیق کےمتنازعہ ہونے کے حوالے سے پنجاب یونیورسٹی کے Center of Stem Cell Research and Re-Generative Medicineکی پروفیسرڈاکٹر شاہین این خان نے بتایا کہ چونکہ ایمبریونک سٹیم سیلز کو رحم مادر میں پروان چڑھنے والے ایمبریو سے حاصل کیا جاتا ہےجس نے آگے چل کر ایک مکمل جاندار کی شکل اختیار کرنی ہوتی ہے۔ اور ایمبریو سے سٹیم سیل حاصل کرنے میں اسکے ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے لہذا اس تحقیق پر دنیا بھر میں مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی۔
سٹیم سیل تحقیق کے متنازعہ ہونے پر سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اس تحقیق کے لئے حکومتی فنڈز پرسن دوہزار ایک میں پابندی عائد کردی تھی۔ جسے 7 مارچ 2009 کو امریکی صدر باراک اوباما نے ختم کردیا۔
سٹیم سیلز تحقیق کے میدان میں ہونے والی چند کامیابیوں کی مختصر تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
فروری 2005 میں جنوبی کوریا کے سائسندانوں نے پہلی بار ایسے سٹیم سیلز تیار کئے جنہیں کسی بھی انسان کی ضرورت کے مطابق نمو دی جاسکتی تھی۔
نومبر 2006 میں برطانوی سائنسدانوں نے چوہوں کی آنکھوں میں سٹیم سیل کی ٹرانسپلانٹ یا پیوندکاری کے ذریعے ان کی بینائی واپس لانے میں کامیابی حاصل کی۔
اور برطانوی سائنسدانوں نے ہی ایک اور تجربے میں انسانی ہڈی میں پائے جانے والے گودے کے سٹیم سیلز کے ذریعے چوہوں میں زیابیطس پر قابو پانے کا طریقہ کار دریافت کرلیا۔
جنوری 2007 میں امریکی سائنسدانوں نے رحم مادر میں بچے کو لپیٹ میں لئے ہوئے سیال مادے سے سٹیم سیلز حاصل کرنے کا طریقہ کار دریافت کرنے کا دعویٰ کیا۔
اپریل 2007 میں برطانوی سائنسدان پہلی مرتبہ سٹیم سیلز کی مدد سے انسانی دل کا ایک حصہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اور تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر مگدی یعقوب نے دعوی کیا کہ مصنوعی طریقے سے بنائے گئے دل کے حصوں کوڈاکٹرز تین سال کے اندر مریضوں کے جسم میں لگانے کے قابل ہوجائیں گے۔
نومبر 2007 میں جاپان اور امریکی سائنسدانوں نے علیحدہ علیحدہ کی جانے والی تحقیق میں انسانی جلد سے سٹیم سیلز حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
اگست 2008 میں جاپانی سائنسدانوں نے ایک دس سالہ بچی کی داڑھ سے سٹیم سیلز حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی جنہیں جگر کی بیماریوں کے علاج کے لیا استعمال کیا جاسکتا ہے۔