سپریم کورٹ نوٹس لے، شمع بی بی کے والد کا مطالبہ
7 نومبر 2014پاکستانی پنجاب کے ضلع قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن میں مقدس اوراق کی بے حرمتی کے الزام میں زندہ جلائی جانے والی مسیحی خاتون شمع بی بی کے والد مختار مسیح نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کا سو موٹو نوٹس لیتے ہوئے اس کی تحقیقات سپریم کورٹ کے ججوں سے کروائے۔
ایک سوال کے جواب میں مختار مسیح کا کہنا تھا کہ کون سا قانون انسانوں کو زندہ جلا دینے کی اجازت دیتا ہے، ’’قانون تو حکومت کے پاس ہے، اگر ان لوگوں کو شبہ تھا کہ میری بیٹی سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے، تو وہ اسے پولیس کے حوالے کر دیتے، اس کے خلاف پرچہ درج کرا دیتے، کوئی انکوائری ہوتی اور جرم ثابت ہوتا تو حکومت سزا دیتی اور اگر جرم نہ ثابت ہوتا تہ وہ بری ہو جاتی۔‘‘
لاہور کے نواح میں واقع مسیحی بستی یوحنا آباد کے علاقے آصف ٹاون کے رہائشی مختار مسیح آج کل گھر پر رہتے ہیں۔ ان کے پانچ بیٹے اور چھہ بیٹیاں محنت مزدوری اور چھوٹے موٹے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ اس واقعے کے بعد پاکستانی حکومت کی کارکردگی کو وہ کیسے دیکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ان کے لیے اطمینان کا باعث ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے اس واقعے کا نوٹس لیا ہے، مقدمہ درج ہوا ہے اور لوگ بھی گرفتار ہوئے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کا اندراج پولیس اہلکاروں کی بجائے ان کی مدعیت میں ہونا چاہیے تھا، ’’میں نے اس سلسلے میں مقامی عدالت میں درخواست بھی دائر کر دی ہے، میں چاہتا ہوں کہ ایف آئی آر ہماری طرف سے کاٹی جائے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’اس وقت تو میرے اوپر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے اور نہ ہی مجھے ہراساں کیا جا رہا ہے، البتہ مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
ڈی ڈبلیو کو خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مختار مسیح کا کہنا تھا کہ اس کی بیٹی اور داماد مقدس اوراق کی توہین میں ملوث نہیں ہیں۔ بھٹے کے مالک کے ایما پر لین دین کے ایک تنازعے کی وجہ سے ان کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا گیا ہے۔ تاہم وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے داماد شہزاد مسیح کا معمر والد نادر مسیح جادو ٹونے کا کام بھی کرتا تھا اور لوگ اس کے پاس تعویز لینے بھی آیا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ چند ہفتے پہلے نادر مسیح کی وفات کے بعد شمع نے نادر مسیح کے سوٹ کیس کو صفائی کی غرض سے کھولا تو اس میں موجود قرآن اور بایئبل مقامی لوگوں کو دے دیے جبکہ ہاتھ سے لکھے ہوئے کاغذات کو جلا دیا گیا۔
مختار مسیح کا خیال ہے کہ اس کی بیٹی اور اس کے داماد کو اگر کمرے میں بند نہ کیا جاتا تو شاید وہ بچ جاتے، ’’اس دن منگل تھا، جب صبح مجھے فون پر اطلاع ملی کہ میری بیٹی کو مار دیا گیا ہے۔‘‘
شمع اور شہزاد مسیح کے چار بچے تھے، ایک بچہ انہوں نے شہزاد مسیح کے بھائی کو دے رکھا تھا جبکہ باقی تین بچے اب مختار مسیح کے پاس ہیں۔ شمع کا بڑا بیٹا چھہ سال کا ہے، ’’اب میں ہی ان کی دیکھ بھال کروں گا۔یہ میرے گھر پر رہیں گے، یہاں ان کی خالہ بھی ہے۔‘‘
مختار مسیح کو مقامی سیاسی رہنماوں سے گلہ ہے، ’’میں چاہتا تھا کہ میری بیٹی کا جنازہ بدھ کی صبح ہو لیکن سب نے حالات کی سنگینی کا ذکر کرکے رات گئے تدفین کرا دی، میرے کئی رشتہ دار جنازے میں شامل نہیں ہو سکے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’مجھے دکھ ہے کہ میری بیٹی اور میرے داماد کو مار دیا گیا لیکن اب میں اس دکھ کو ایک تحریک میں بدلنا چاہتا ہوں۔ ایک ایسی تحریک جو بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہو اور اس کے نتیجے میں کسی بھٹہ مالک کو جرات نہ ہو کہ وہ کسی غریب پر ظلم کر سکے۔ ‘‘ مختار مسیح کے بقول پیشگی رقم دے کر انسانوں کو ’خریدنے‘کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
مختار مسیح کے مطابق ان کو ابھی تک کہیں سے امداد نہیں ملی ہے البتہ ان کے مسلمان اور مسیحی ساتھی ان کا خیال رکھ رہے ہیں۔ کئی شہروں سے لوگ فون کر کے ان کے ساتھ اظہار تعزیت بھی کر رہے ہیں۔ ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم انہیں قانونی معاونت بھی فراہم کر رہی ہے۔