سپلائی روٹ کا معاملہ بات چیت اور باہمی رضامندی سے حل ہونا چاہیے، ایردوآن
22 مئی 2012منگل 22 مئی کو اپنے پاکستانی ہم منصب کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں ترک وزیراعظم نے کہا کہ نیٹو سپلائی لائن کی بندش پاکستان کا اپنا فیصلہ ہے اور اس کی بحالی بھی پاکستان کی صوابدید ہے۔ ہمیں اس معاملے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔ رجیب طیب نے کہا: ’’ہم نیٹو کے رکن کی حیثیت سے سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے معاملات بات چیت اور باہمی رضا مندی سے حل کرنے چاہییں۔‘‘
افغانستان سے نیٹو اور ایساف فوج کے انخلاء کے بارے میں ترک وزیراعظم نے کہا کہ 2014 میں غیر ملکی فوجوں کے افغانستان سے انخلاء کا منصوبہ ہے لیکن یہ حتمی تاریخ نہیں اس میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترک فوج سب سے آخر میں افغانستان سے نکلے گی انہوں نے کہا: ’’اپنے بھائیوں کو اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک وہ یہ نہ کہہ دیں کہ آپ کا بہت شکریہ اور اب آپ جا سکتے ہیں۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ انہوں نے پاک امریکا اور نیٹو کے ساتھ تعلقات پر ترک وزیراعظم سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سلالہ کے واقعے میں 24 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد نیٹو سپلائی اور شمسی ایئربیس بند کی ۔ وزیراعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ پارلیمانی سفارشات کی روشنی میں امریکا کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور انہی سفارشات کی روشنی میں امریکا کے ساتھ دیرپا اور بہتر تعلقات قائم ہونگے۔ انہوں نے کہا: ’’ہم پوری دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں اور پاکستان مسائل کے حل کا حصہ ہے اور محض پاکستان ہی افغانستان کے لیے مسائل کا حل نہیں اور کوئی بھی سیاسی مفاہمت افغانستان میں ہوتی ہے جس کی قیادت افغان کریں پاکستان اس سلسلے میں پورا تعاون کرے گا۔‘‘
ادھر پاکستانی صدر کی شکاگو کانفرنس میں شرکت کے موقع پر ان کے ساتھ میزبان امریکی صدر اوباما کی جانب سے مبینہ سردمہری کے رویے پر بحث مباحثے کا سلسلہ جاری ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا سے ملنے والی اطلاعات اور خبروں سے یہ بات واضع ہے کہ صدر اوبامہ نے افغان صدر حامد کرزئی کے مقابلے میں صدر زرداری کے ساتھ زیادہ گرمجوشی کا رویہ نہیں رکھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکا نیٹو سپلائی کی بحالی کا اعلان نہ کیے جانے پر ناراض ہے ۔ تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے: ’’امریکا بارہا کہہ رہا ہے کہ سارے مسئلے کی جڑ افغانستان نہیں پاکستان ہے اور اگر وہ یہ بات کہہ رہے ہیں تو وہ کسی بنیاد پر کہہ رہے ہیں اور اگر ہم میں واقعی کوئی خرابی ہے تو ہمیں چاہیے کہ اسے فوری طور پر ٹھیک کیا جائے اور اس بات پر اصرار نہ کیا جائے کہ ہمیں معافی چاہیے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر زرداری کی نیٹو اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپسی پر سول اور فوجی قیادت سے ملاقاتوں کے بعد امریکا اور نیٹو کے مستقبل میں تعلقات کے حوالے سے اہم اعلانات متوقع ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: افسر اعوان