سچ اور جھوٹ کی کشمکش عافیہ صدیقی کی فیملی وکیل کا بیان
27 اگست 2008ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری، پراسرار گمشدگی، بگرام جیل میں بحیثیت قیدی نمبر چھ سو پچاس ان کی اسیری،القائدہ سے مُبینہ طور پر انکے تعلقات، امریکی خفیہ ادارے FBI کا الزام کے وہ دھشت گرد ہیں عافیہ صدیقی کے گھر والوں کی آہ وبکا اور Human Rights Asia کا یہ دعوی کہ وہ بے قصور ہیں اور امریکہ میں انکی وکیل Sharp Elaine White Field کا حتمی بیان کے عافیہ صدیقی بے قصور ہیں اور پاکستانی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کی سازش اور جھوٹے الزامات کے بھینٹ چڑھی ہیں۔ مختلف ذرائع سے سامنے آنے والی خبریں اور تبصروں پر کس حد تک یقین کیا جا سکتا ہے یہ سوال مغربی حلقوں کی طرف سے اکثر و بیشتراٹھا یا جاتا ہے۔
سن دو ہزار تین میں کراچی سے ڈاکٹر عافیہ کے پراسرار طریقے سے لاپتہ ہونے کے ایک سال بعد امریکی خفیہ سروس اف بی آئی کے ڈائیریکٹر رابرٹ مئیلر نے ایک پریس کانفرنس میں عافیہ صدیقی کو القائدہ کے اُن سات مبینہ دھشت گردوں میں سے ایک قرار دیا تھا جنہیں امریکی حکام اپنے ملک کے لئے سب سے بڑا خطرح سمجھتے ہیں۔ رابرٹ مئیلر نے کہا تھا:
:ان میں سے ہر ایک شخص امریکہ پر حملے کی منصوبہ بندی کی صلاحیت رکھتا ہے اور ان سب کی یہ خواھش بھی ہے۔:
عافیہ صدیقی پر لگائے گئے الزامات کتنے سنگین اور حقائق پر مبنی ہیں؟جب ہم نے یہ سوال چھتیس سالہ پاکستانی شہری اور تین بچوں کی ماں ڈاکٹر عافیہ کی امریکی فیملی لائیر یا خاندانی وکیلElaine White Field Sharp سے کیا تو انکا کہنا تھا:
:عافیہ صدیقی پر لگائے جانے والے الزامات سنگین ہیں تاہم ہمارا خیال ہے کہ ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔:
عافیہ صدیقی کی وکیل شارپ نے ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام کی طرف سے سامنے آنے والے مُتضاد بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ تمام کہانی جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ سب سے پہلے تو امریکی اتھارٹی نے یہ جھوٹ بولا کہ بگرام جیل میں کوئی خاتون قیدی نہیں ہے اور نہ ہی ماضی میں تھی۔ اور اب یکایک یہ بیان دیا جانے لگا کہ : ہاں بگرام میں ایک خاتون بھی مقید تھیں مگر وہ عافیہ صدیقی نہیں تھیں۔:
عافیہ صدیقی کی وکیل کو پاکستانی خفیہ سروس اور حکومت کی طرف سے عافیہ کو FBI کے حوالے کیے جانے کے عمل پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا:
* مُجھے پورا یقین ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے اور حکام نے مل کر عافیہ صدیقی کو سن دو ہزار تین میں امریکی حکام کے حوالے کیا تھا۔:
پانچ سال سے زائد کے عرصے کی گمنامی کے بعد مُختلف ذرائع سے منظرِ عام پر آنے والی خبروں کے بعد عافیہ صدیقی کے ساتھ بگرام جیل میں ہونے والے امریکی فوجیوں کے انسانیت سوز رویے پر انکے گھر والے مزید خاموشی برقرار نہ رکھ سکے اور کچھ ہفتوں قبل کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ نے کہا تھا: یہ کہانی محض ایک عورت، میری بہن تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ میری بہن کی آبرو ریزی، اور ازیت رسانی اُس پر لگے الزامات سے کہیں زیادہ بڑا جرم ہے۔:
جب ہم نے ElaineSharp سے پوچھا کہ آخر عافیہ صدیقی کو نیو یارک کی عدالت میں کیوں پیش گیا جبکہ وہ ماضی میں اپنی فیملی سمیت امریکی ریاست میسیچوسٹس میں آباد تھیں تو عافیہ کی وکیل نے کہا کہ انکا خیال ہے کہ عافیہ کو نیو یارک اس لئے لایا گیا کیوں کہ وہیں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے ہوئے تھے۔ وہاں سے نائین الیون کی یادیں وابستہ ہیں اور امریکی حکام عافیہ کے خلاف مقدمے کی کاروائی ایک ایسے شہر میں چلانے چاہتے ہیں جہاں ان کے خلاف تعصب سب سے زیادہ پایا جائے۔:
عافیہ کی وکیل شارپ نے اس امر کی طرف نشاندہی کی ہے کہ برطانوی صحافی ایوون ریڈلی اور معروف پاکستانی کرکٹرعمران خان نے مل کر جس طرح سے میڈیا میں اس موضوع کو اُٹھایا اس سے اسلام آباد حکومت پر غیر معمولی دباو پڑا اور آخر کار امریکی اور پاکستانی حکام نے مل کر ایک کہانی گڑھی جو شارپ کے مُطابق کسی صورت قابلِ یقین نہیں ہو سکتی۔ انکا کہنا ہے
:جب پاکستان کی سپریم کوٹ میں عافیہ صدیقی کی رہائی کی درخواست دائر کی گئی اور سابق صدر مُشرف پر دباؤ ڈالا گیا کہ نوء اگست تک وہ اس کا کوئی جواب دیں تو اچانک عافیہ صدیقی کی افغانستان میں پکڑے جانے کی خبر منظر عام پر آئی۔ یہ بات ہرگز قابل یقین نہیں۔ عافیہ کی وکیل شارپ کویقین ہے کہ عافیہ کو بگرام جیل میں مخفی طور پر رکھا گیا اور انہیں ایک خاص وقت پیش کیے جانے کی منصوبہ بندی تھی۔ اور ان کے پاس سے مشکوک دستاویزات کے بیگ کے برآمد ہونے کی کہانی محض الزام ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ با لکل نہیں مانتی کہ یہ چیزیں عافیہ نے خود اکٹھے کی تھیں۔:
آخر عافیہ صدیقی کا کوئی زاتی بیان اب تک کیوں سامنے نہیں آیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں انکی
وکیل کا کہنا تھا کہ امریکی عدالت میں عافیہ ایک مُجرم کی حیثیت سے پیش کی گئی ہیں۔ اُنہیں سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ اُنہیں میڈیا میں بیان دینے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔
عافیہ صدیقی کی فیملی لائر نے امریکی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر وہ عافیہ پر لگے الزامات پر مُثرہیں تو انہیں ثبوت پیش کرنا چاہئے۔ اور اگر انکے پاس ثبوت نہیں ہے تو انہیں میڈیا کے ذریعے یہ غلط تائثر دینا بند کرنا ہوگا کہ ان کے پاس کوئی ثبوت موجود ہے۔امریکی حکام یا تو عافیہ کے خلاف الزامات کا ثبوت پیش کریں نہیں تو غلط بیانیوں کا سلسلہ بند کرے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی فیملی لائیر نے اس قسم کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا کہ عافیہ کی خالد شیخ مُحمد سے کوئی رشتہ داری تھی یا دونوں کا کوئی رابطہ تھا۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ معلوم ہے کہ خالد شیخ مُحمد نے عافیہ صدیقی کا نام سخت اذیت رسانی کے دوران لیا تھا۔ تاہم یہ نہیں بھولنا چاھئے کہ بعد میں وہ اپنے تمام ان بیانات سے پیچھے ہٹ گئے جو انہوں نے ظلم و زیادتیوں کے دباو میں دیے تھے۔:
عافیہ صدیقی کی مرحوم والدہ اور انکی بہن ڈاکٹر فوزیہ کی طرف سے مُختلف وقتوں میں دیے جانے والے بیانات میں جن چوٹی کے پاکستانی سیاستدانوں اور حکومتی اہلکاروں کے نام سامنے آتے رہے۔ ان میں سے ایک اہم نام سندھ کے سابق گورنر اور سابق وزیرِ داخلہ معین الدین حیدر کا بھی ہے۔ ان کے ساتھ ہم نے رابطہ قائم کیا تو معین الدین حیدر نے ان واقعات کے حوالے سے بتایا کہ عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی کا ایک رمانے میں انکے گھر پر اکثر آنا جانا رہتا تھا تاہم جب معین الدین حیدر صاحب وزارت داخلہ سے ہٹ چکے تھے اس وقت عصمت صدیقی نے ان سے اپنی بیٹی عافیہ صدیقی کی پاکستان واپسی کی خبر دی تھی اور ساتھ ہی گزارش کی تھی کہ ڈاکٹر عافیہ کہ کسی اچھی جگہ نوکری دلوادیں۔ اس پر معین الدین حیدر صاحب نے کراچی کے لیاقت نیشنل ہسپتال کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تھا اور امریکہ سے اعلی ڈگری حاصل کرنے والی ڈاکٹر عافیہ کی نوکری کی سفارش کی تھی۔ معین الدین حیدر کے مطابق یہ واقع سن دو ہزار تین کا ہے جس وقت وہ حکومتی عہدے سے دست بردار ہوچکے تھے۔ تاہم اس کے فو راٍ بعد عافیہ صدیقی کی پراسرار گمشدگی کا افسوسناک واقع پیش آیا اور اس کے بعد سے عافیہ صدیقی کی والدہ کبھی بھی ان کے پاس نہیں آئیں۔ تاہم معین الدین حیدر نے بتایا کہ عافیہ کی والدہ نے ان واقعات سے پہلے ایک آدھ بار ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور انکے شوہر ڈاکٹر امجد خان کے نجی تعلقات میں بگاڑ کی طرف تشاندہی کی تھی۔ سابق گورنر سندھ اور وزیر اعلی معین الدین حیدر نے ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہیں عافیہ صدیقی کے انکے بچوں سمیت اس طرح گرفتار کیے جانے پر سخت افسوس ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ امریکی عدالت انہیں انصاف فراہم کرے گی اور وہ با عرت طور پر اپنے ملک واپس آ سکیں گی۔ اس سوال کے جواب میں کہ آخر پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ کی انکے تین بیٹوں سمیت پاکستانی سرزمین سے اس طرح ہونے والی گرفتاری کیوں کر ممکن ہوئی، معین الدین حیدر کا کہنا تھا کہ اُسی طرح جس طرح بہت سے دیگر لوگ امریکی حکام اور خفیہ ادارے کے حوالے کئے گئے ہیں ، یہ افسوس ناک واقع بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔
ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جرمن شاخ عافیہ صدیقی کیس کی باریکی سے چھان بین کر رہی ہے۔ تاہم معاملات کی پیچیدگی کے سبب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ابتک اس بارے میں اپنا کوئی حتمی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے۔ جرمن شاخ کی پاکستان امور کی نگراں Siegrid Krieg نے ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ایک اور اہم نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ انکے ادارے کو ملنے والی اطلاعات کے مُطابق افغانستان میں عافیہ صدیقی کے ساتھ علی نامی ایک بارہ سالہ لڑکا بھی گرفتار کیا گیا تھا جس کے بارے میں مزید کوئی خبرنہیں ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ غالباٍ یہ لڑکا عافیہ کا بیٹا ہے۔ عمر کے حساب سے تو ایسا لگتا ہے کیونکہ عافیہ کا بڑا بیٹا بھی اب تقریباٍ اسی عمر کا ہوگا۔ تاہم پھر یہ کہا جانے لگا کہ بارہ سالہ علی عافیہ کا بیٹا نہیں ہوسکتا۔ ایمنسٹی اس وقت سب سے زیادہ توجہ اس مُبہم معاملے پر مرکوز کر رہی ہے۔ اور اس حقیقت کا سراغ لگانے کے لئے تحقیقی کاروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔:
عافیہ صدیقی کیس نہ صرف پاکستانی عوام کے جذبات کو پہنچنے والا شدید صدمہ ہے بلکہ اس کے گہرے اور دور رس اثرات سے پاکستان کے دانشور بھی خبر دار کر رہے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق چئرمین اور پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے موجودہ صدر اور امریکہ سمیت دیگر مغربی آئین پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر سید ہمائیوں کا اس بارے میں کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس ایک بہت بڑا سیاسی Issue بن جائے گا۔ تاہم انھوں نے کہا کہ امریکی عدالت سے انہیں عافیہ صدیقی کے ساتھ منصفانہ سلوک کی اُمید نہیں نظر آ رہی ہے۔ جبکہ یہ کیس امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ ڈاکٹر سید ہمائنیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کو تمام سوجھ یوجھ سے کام لینا چاہئیے۔ اگر امریکہ مسلم دنیا اور خاص طور سے پاکستان میں اپنا Image بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے تو اسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو باعزت طور پر بری کر دینا چاہئے۔ یہ اقدام امریکہ، پاکستان اور پاکستانی عوام سب کے بہترین مفاد میں ہوگا۔
کشور مصطفی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی فیملی وکیلElaine White Field Sharp کے ساتھ کشور مصطفی کی بات چیت آپ ڈوئچے ویلے کے ایشیائی شعبے کی انگریزی سروس کے ویب سائٹ پر سن سکتے ہیں۔ یہ انٹرویو انگریزی زبا ن میں ہے۔ اس ویب سائٹ کا پتہ ہے:
http://www2.dw-world.de/southasia/South_Asia/1.234379.1.html