سکیورٹی کی ذمہ دار پنجاب حکومت: گورنر سلمان تاثیر
2 ستمبر 2010لاہور میں یومِ حضرتِ علی کے سلسلے میں شیعہ عزاداروں کے ایک جلوس میں تین بم دھماکے کئے گئے، جن کے نتیجے میں اڑتیس افراد ہلاک اور دو سو سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ اِس سلسلے میں خاص طور پر شیعہ تنظیمیں سکیورٹی اداروں پر غفلت برتنے کا الزام عائد کر رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دھماکوں کے فوراً بعد مشتعل مظاہرین نے پولیس اہلکاروں، اُن کی گاڑیوں اور پولیس اسٹیشنوں پر حملے بھی کئے۔ اِس سوال کے جواب میں کہ پے در پے ایسے کئی حملوں کے بعد آخر سکیورٹی انتظامات بہتر کیوں نہیں بنائے گئے، سلمان تاثیر نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنی خصوصی گفتگو میں کہا کہ صوبے میں سلامتی اور امن و امان کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ ایسے حملوں کی دھمکیاں کافی عرصے سے مل رہی تھیں اور حالات مسلسل بگڑتے جا رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اُنہیں سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ وزیر اعلیٰ کی کابینہ کے ارکان اور خاص طور پر وزیر قانون کھلم کھلا دہشت گرد تنظیموں کے ارکان کے ہمراہ گھومتے پھرتے رہے ہیں۔ گورنر نے کہا کہ وزیر قانون کے حوالے سے پہلے اہل سنت والجماعت کے ارکان نے یہ الزام لگایا تھا اور اب اہلِ تشیع بھی یہی بیان دے رہے ہیں کہ ان کے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جب پولیس مخصوص تنظیموں کے ارکان کو اِن وُزراء کے ہمراہ نعرہ بازی کرتے دیکھتی ہے تو پھر کیسے وہ اُن پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔
سلمان تاثیر کے مطابق اُنہوں نے پنجاب حکومت کے ارکان کے ’سپاہِ صحابہ‘ وغیرہ کے ساتھ روابط کو دیکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ کو خبر دار کیا تھا کہ یہ لوگ ایک خاص ایجنڈا رکھتے ہیں، شیعہ کمیونٹی کو کافر قرار دلوانا چاہتے ہیں اور اُن کی مسجدیں بند کروانا چاہتے ہیں، اِس لئے اِن کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے۔
گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے کچھ عرصہ پہلے لاہور کے دینی ادارے جامعہ نعیمیہ میں دئے گئے ایک بیان کو بھی ایک بار پھر بزدلانہ قرار دیتے ہوئے ہدفِ تنقید بنایا۔ گورنر تاثیر کے مطابق اِس بیان میں شہباز شریف نے طالبان کو پنجاب پر حملوں سے یہ کہہ کر باز رہنے کے لئے کہا تھا کہ ’ہماری اور آپ کی سوچ میں کوئی فرق نہیں ہے‘۔
لاہور بم حملوں کے بعد ایک بار پھر درجنوں مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ گورنر پنجاب نے اِس طرح کے اقدامات پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی ایک نہیں درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن اُنہیں سزا دینے کی بجائے چھوڑ دیا گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ جیلوں میں موجود دہشت گردوں کو بھی موبائل فون کی طرح کی بیشتر سہولتیں حاصل ہیں جبکہ اُن کے خیال میں دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کی رُو رعایت نہیں کی جانی چاہئے۔
انٹرویو: امجد علی
ادارت: افسر اعوان