1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سگے رشتہ دار اور بچوں سے جنسی زیادتی کے اذیت ناک واقعات

16 دسمبر 2020

پینتیس سالہ ناجیہ ایک سرکاری کالج میں پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے زندگی میں ایک بار شادی کی، جو صرف ڈیڑھ ماہ چل سکی۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی سگے، سوتیلے یا دور و نزدیک کے رشتے دار پر یقین نہیں کر سکتیں۔

https://p.dw.com/p/3mnf2
Shumaila Hussain | DW Urdu Blogerin
تصویر: Privat

اپنی ماں سے انہیں نفرت ہے اور بھائیوں سے ملتی نہیں جب کہ والد اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ مجھ سے ان کی بات ہوئی تو یہ انکشاف بہت حیران کن تھا کہ ان کا سگا بھائی، جو عمر میں ان سے ڈیڑھ سال بڑا تھا، ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا رہا، اس وقت جب وہ ابھی خود پندرہ سولہ سال کی تھیں۔

انہوں نے یہ بات اپنی ماں کو بتائی تو ماں نے انہیں یہ کہہ کر خاموش کرا دیا کہ اگر یہ بات ان کے والد کو پتہ لگی تو وہ بھائی کو مار ڈالیں گے۔ ماں نے اپنے طور پر بیٹے کو روکنے کی کوشش بھی کی لیکن جب بھی موقع ملا، بھائی نے وہی عمل دہرایا۔

اس وجہ سے انہیں حمل کی اذیت سے بھی گزرنا پڑا اور ان کی ماں نے وہ حمل گرانے کے لیے ایک مڈ وائف کی خدمات بھی لیں۔ ان کی جان اس عذاب سے تب چھوٹی، جب وہ ایف اے کے بعد کسی اور شہر میں بی ایس کرنے کے لیےگئیں۔ وہ بھائی اب بھی معاشرے میں ایک عزت دار بزنس مین بن کر زندگی گزار رہے ہیں، ان کے بیوی بچے ہیں لیکن ناجیہ اپنی نفسیاتی الجھنوں کے باعث کسی کے ساتھ گھر نہیں بسا پائیں۔

آپ پڑھتے ہوئے تھک جائیں گے اور میں بتاتے ہوئے لیکن یہ واقعات تھم رہے ہیں نہ ان میں کمی کے کوئی چانسز ہیں۔ مذکورہ واقعے کی طرح آپ نے کبھی نہ کبھی کہیں کوئی ایسی خبر ضرور پڑھی ہوگی یا سنی ہو گی، جہاں ایک محرم رشتہ اپنے ہی بہن، بھائی، بیٹی، بھانجی یا بھتیجی کو جنسی طور پہ استعمال کرتا پکڑا گیا ہو۔

میں نے بھی خبروں میں سنا اور پڑھا لیکن دماغ ایسی خبروں کی صداقت پر ہمیشہ مشکوک ہی رہا۔ پھر ہوا یوں کہ جب دوستوں، طالب علموں اور رشتے داروں سے اس طرح کے واقعات پر بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ہمار ے آس پاس یہ سب پردہ داری کے ساتھ جاری و ساری ہے۔

معاملہ چونکہ محرمات کا ہے تو بدنامی کے خوف سے ایسی باتیں گھروں میں ہی دبا دی جاتی ہیں۔ لہٰذا جو واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں، وہ تو بہت کم ہیں اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ زیادہ تکلیف دہ ہے۔

’پاکستان گیارہ سے پندرہ برس کے بچوں کے لیے بہت پُرخطر‘

ہوسکتا ہے آپ کو آج کا بلاگ خبرنامہ لگے یا پھر ایسی کہانیوں کا مجموعہ، جن پر آپ کبھی یقین نہ کرنا چاہیں۔ جن لوگوں سے میری  بات ہوئی ان کے اصلی نام ظاہر کیے بغیر میں فرضی ناموں کے ساتھ ان واقعات کو بیان کر رہی ہوں۔

لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی ایک عورت اپنی بیٹی کو گھر سگے باپ کی نگرانی میں چھوڑ کر جاتی رہیں اور ایک دن جب وہ اپنے مقررہ وقت سے قبل اچانک گھر پہنچیں تو انہوں نے باپ کو بیٹی کے ساتھ بدفعلی میں مصروف پایا۔

وہ اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے صرف اتنا کر سکتی تھیں کہ شوہر سے الگ ہو جائیں اور وہ ہو گئیں، لیکن جب انہوں نے دوسری جگہ شادی کی تو سوتیلے باپ نے بھی ان کی بیٹی کو آسان ہدف سمجھ کر وہی سب کچھ کیا۔ اب ان خاتون نے اپنی تیرہ سال کی بیٹی کی شادی کر دی ہے، خود ان کے تین اور بچے پیدا ہو چکے ہیں اور وہ شکر ادا کرتی ہیں کہ اب کی بار تینوں بیٹے ہیں۔

ایک پوش گھرانے کی خاتون شمع  کے مطابق ان کے سگے دادا ان کے ساتھ ساتھ ان کے گھر میں موجود چچا زاد، تایا زاد اور پھپھو زاد بچیوں کے ساتھ عجیب حرکتیں کیا کرتے تھے۔ شمع  کا کہنا ہے کہ جب ان بچیوں نے اپنے والدین سے شکایت کی تو پہلے پہل والدین نے ان کی بات پر یقین کرنے کی بجائے انہیں بری طرح سے ڈانٹ پلائی لیکن جب ایک آدھ بار ان میں سے کسی کی امی نے یہ سب خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو  دادا کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی گئی۔

لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دادا کو گھر سے نکال دیا گیا ہو یا ان بچیوں کے تحفظ کے لیے کوئی خاص قدم اٹھایا گیا ہو۔ یہ اور ایسے بہت سے واقعات ہیں، جن میں صرف لڑکیاں ہی نہیں لڑکے بھی سگے رشتوں کی ہراسمنٹ کا سامنا کرتے ہیں۔

مسٹر جمیل اس وقت ساٹھ سالہ بزرگ ہیں۔ انہوں نے بچپن میں اپنے ساتھ ہوئے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ گیارہ سال کے تھے، ان کی سگی پھپھو ان کو زبردستی اپنے ساتھ سلاتی تھیں اور ان کے ساتھ الٹی سیدھی حرکتیں کرتیں۔ اسی طرح ایک اور دوست کا کہنا ہے کہ بچپن میں وہ اپنی سگی خالہ کے ہاتھوں ہراس ہوتے رہے۔

ایسے واقعات کا شکار لوگ بظاہر نارمل زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن اندر کہیں اپنوں اور غیروں پر اعتماد کے قابل نہیں رہتے۔ بداعتمادی کے ساتھ ساتھ اپنے جنسی رویوں میں یا تو بہت زیادہ متشدد ہو جاتے ہیں یا پھر بالکل ہی خوفزدہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔

ان رویوں کی وجوہات اور محرکات کے بارے میں تو ماہرین نفسیات ہی تفصیلی بات کر سکتے ہیں، میری گزارش یہ ہے کہ اپنے بچپن کے زمانے کو اتنا اچھا بھی مت سمجھیں کہ تب کوئی اخلاقی برائی وجود رکھتی ہی نہیں تھی۔ اس بات کو قبول کریں کہ تب بھی والدین اپنے بچوں کو سنتے سمجھتے نہیں تھے، یقین نہیں کرتے تھے اور آج آپ بھی اپنے بچوں کی بہت کم سنتے ہیں۔

ہمارے بچپن میں واقعات رپورٹ نہیں ہوتے تھے لیکن اب رپورٹ ہوتے ہیں، اس وقت کوئی بات تک نہیں کرتا تھا اور اب خود میں آپ کو نام بدل کے لوگوں کی سچی کہانیاں سنا رہی ہوں، فرق بس یہ ہے۔

اگر تب نفسیاتی الجھنوں میں گھر جانے والے لوگ آج کے والدین بن چکے ہیں تو انہیں چاہیے کم از کم اپنے بچوں کو ان سب چیزوں سے بچائیں۔ ان کی بات سنیں، ان پر یقین کریں اور ان کا ساتھ دیں، اپنے بچوں کی حفاظت کریں۔