’سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے‘
16 مارچ 2022پاکستان میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے حوالے سے ہونے والے ظاہری اور درپردہ سیاسی رابطوں میں تیزی آ گئی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سیاسی رابطوں کا بڑا مرکز بن چکا ہے جبکہ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے اپنی اپنی کامیابیوں کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
ابھی تک صورتحال غیر واضح
تحریک عدم اعتماد کے فیصلے کے کئی ہفتوں بعد بھی کسی اتحادی نے ابھی تک واضح طور پر حکومت کا ساتھ دینے کا غیر مبہم اور حتمی اعلان نہیں کیا ہے۔ مسلم لیگ ق، جی ڈی اے اور ایم کیو ایم سمیت تمام اتحادیوں کی طرف سے حکومت کے حق اور مخالفت میں ذومعنی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک لیڈر ایک دن حکومت کے حق میں بیان دیتا ہے تو دوسرے دن دوسرا لیڈر مخالفت میں بیان داغ دیتا ہے۔
جیو ٹی وی کے پنجاب میں بیورو چیف رئیس انصاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے تقریبا دو درجن کے قریب ارکان اسمبلی اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دینے کے لیے اپنی رضامندی سے مطلع کر چکے ہیں لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ ان میں سے کتنے آنے والے دنوں میں ثابت قدم رہ سکیں گے۔
حالات تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
قانونی ماہرین کے مطابق تحریک عدم اعتماد ایک آئینی راستہ ہے۔ اگر اس راستے میں حکومت کی طرف سے زور زبردستی کرتے ہوئے روکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں کی گئیں تو پھر ملک کے وفاقی دارالحکومت میں ایک خوفناک تصادم جنم لینے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ سیاسی رہنماؤں کی اشتعال انگیز تقریروں کے ماحول میں ایک طرف پاکستان تحریک انصاف نے اپنے لاکھوں کارکنوں کو تحریک عدم اعتماد سے پہلے ستائیس مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دی ہے تو دورسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے لاکھوں کارکنوں کو اسلام آباد میں جمع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد پولیس میں اتنے بڑے مشتعل ہجوم سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
کیا حالات سوچ سمجھ کر خراب کیے جا رہے ہیں؟
عام طور پر اپوزیشن سخت گیر طرز عمل اختیار کرتی ہے اور حکومت صورتحال کو سنبھالنے کے لیے مفاہمانہ رویہ اپناتی ہے۔ عوامی حلقوں میں یہ سوال بھی گردش کر رہا ہے کہ حکومت کی طرف سے مسلسل جارحانہ طرز عمل کہیں سیاسی بساط لپیٹنے کے لیے کسی 'طے شدہ منصوبے‘ کا تو حصہ نہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے ایک انٹرویو میں ملک میں پانچ سال کے لیے مائنس پی ٹی آئی قومی حکومت قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ملک بھر کی بار کونسلز نے اس صورت حال میں ملک کی اعلی ترین عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پنجاب میں کیا ہو رہا ہے؟
سینئر صحافی رئیس انصاری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے برسر اقتدار آنے کے بعد جب سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلی بنایا گیا تو اس وقت علیم خان گروپ اور ترین گروپ سمیت پی ٹی آئی کے کئی گروپوں نے اس پر خاموش ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ اب تحریک عدم اعتماد کی باتیں سامنے آنے پر یہ سارے گروپ ایکٹو ہو گئے ہیں۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ اتحادیوں کی طرف سے کوئی پوزیشن لینے کے بعد تحریک عدم اعتماد کے قریب جا کر یہ گروپ بھی اپنا فیصلہ سنا سکتے ہیں۔ ان کے بقول پنجاب میں حکومت کی تبدیلی میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون پرویز الہی کو وزیر اعلی بنانے پر تیار نہیں ہے۔ نون لیگ فوری الیکشن چاہتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اگر پرویز الہی زیادہ دیر وزیر اعلی پنجاب رہے تو ان کے سب سے زیادہ حمایتی صوبے میں حالات ان کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے بعد کا منظر نامہ
ڈی ڈبلیو کی طرف سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ ابھی انہوں نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کے حالات کے حوالے سے کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت کے جانے کے بعد، جو بھی آئے گا، وہ اس حکومت سے بہتر ہی ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے ایک سینئیر رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو اپوزیشن تحریک کی وجہ سے ملک میں عدم استحکام رہے گا۔ اور اگر یہ کامیاب ہو گئی تو پھر پی ٹی آئی میں اکٹھے کیے جانے والے الیکٹ ایبلز پارٹی سے نکل جائیں گے اور نئی حکومت سرکاری وسائل کے ساتھ پی ٹی آئی کے خلاف ایک ایسا بیانیہ تشکیل دے گی، جس سے ان کے لیے اگلا الیکشن مشکل ہو جائے گا۔
سوشل میڈیا میمز
حکومت اور ان کے مخالفین کی طرف عوامی سطح پر سوشل میڈیا پر طنزیہ پوسٹوں اور میمز کا سیلاب بھی آیا ہوا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں عمران خان کسی پہاڑی علاقے میں شکار کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور اس کے پس منظر میں یہ گیت چل رہا ہے۔
دل اُمید توڑا ہے کسی نے
سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے