1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیارچے پر یورپی خلائی مشن کو ’سائے‘ سے خطرہ

عاطف توقیر14 نومبر 2014

یورپی خلائی مشن ’فیلے‘ Philae کروڑوں میل دور ایک سیارچے پر اتر تو گیا، تاہم سیارچے کی سطح پر آ کر رکنے میں کامیاب ہو جانے والی یہ خلائی گاڑی ایک گھاٹی کے سائے میں ہے، جس سے اس تک سورج کی روشنی نہیں پہنچ پا رہی۔

https://p.dw.com/p/1Dmhw
تصویر: ESA/Rosetta/Philae/CIVA

جمعرات کے روز سائنس دانوں نے بتایا کہ سیارچے کی سطح پر اتارا گیا یہ مشن جب اس دم دار سیارے کی سطح سے ٹکرایا، تو اس کے تھرسٹرز اور نیزہ نما ہارپُونز نے درست انداز میں کام نہ کیا اور یہ سطح سے ٹکرانے کے بعد کئی میٹر تک دوبارہ خلا میں بلند ہوا۔ سیارچے کی گریویٹی یا کششِ ثقل کی وجہ سے یہ مشن پھر سطح سے ٹکرایا، پھر بلند ہوا اور پھر بالآخر سطح پر ٹِک گیا، تاہم اس تمام عمل میں فیلے اس مقام پر نہ رہا، جہاں اسے رکنا تھا۔ اب یہ خلائی گاڑی ایک بڑی چٹان کے دامن میں ٹھہری ہوئی ہے، جس کی وجہ سے اس تک سورج کی روشنی بہت کم وقت کے لیے پہنچ پا رہی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق ایسی صورت میں اس کی بیٹریاں چارج نہیں ہو پا رہیں۔ اسی لیے یہ مشن زیادہ وقت تک کام کرنے میں ناکام رہے گا۔

Raumfahrt ESA Weltraumsonde Rosetta - Landeeinheit Philae
یہ خلائی گاڑی عالمی وقت کے مطابق بدھ کی شام سیارچے پر اتاری گئیتصویر: ESA via Getty Images

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اچھی خبر یہ ہے کہ ’فیلے‘ مستحکم اور اچھی حالت میں ہے۔ اس کے تمام پرزے اور آلات درست انداز میں کام کر رہے ہیں اور اس سے زمین کے لیے ڈیٹا کی ترسیل شروع ہو چکی ہے، جس میں اس دم دار سیارے کی مختلف تصاویر شامل ہیں۔ تاہم بری خبر یہ ہے کہ اس کی زندگی بہت قلیل ہے، کیوں کہ سولر پینلز پر روشنی وافر مقدار میں نہ پڑنے اور بیٹریاں چارج نہ ہو پانے کی وجہ سے یہ مشن زیادہ دیر تک ڈیٹا ارسال نہیں کر پائے گا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایک یا دو دن میں ’فیلے‘ کی پرائمری بیٹری دم توڑ دے گی۔ اسی وجہ سے اب محققین یہ سوچ رہے ہیں کہ ان بیٹریوں کے ختم ہونے سے قبل ایک خطرہ مول لے لیا جائے، یعنی فیلے کو دوبارہ فضا میں بلند کر کے قسمت آزمائی کی جائے، تاکہ ایک واشنگ مشین کے حجم اور 100 کلوگرام کمیت کا حامل Philae شاید پھر کسی ایسی جگہ آ کر رکے، جہاں اسے سورج کی روشنی میسر ہو۔ اس سے یہ مشن اگلے کچھ عرصے تک زمین پر ڈیٹا کی ترسیل کا کام سرانجام دینے کے قابل ہو سکتا ہے۔

’فیلے‘ کی جانب سے ارسال کردہ ابتدائی تصاویر میں اس سیارچے کی چٹانی سطح دیکھی جا سکتی ہے۔ یورپی خلائی ادارے ESA کے اس مشن سے وابستہ ایک اہم سائنس دان ژاں پیئر بِبرنگ نے بتایا کہ تصاویر سے واضح ہے کہ فیلے اچھی حالت میں ہے۔

بتایا گیا ہے کہ فیلے کی جگہ تبدیل کرنے کے لیے کسی کارروائی سے قبل اگلے ایک یا دو روز تک ابتدائی بیٹری کی موجودگی میں سائنس دان زیادہ سے زیادہ ڈیٹا کے حصول کے خواہاں ہیں۔ اس خلائی گاڑی کے سولر پینلز اس طرح نصب کیے گئے تھے کہ ان سے بیٹری چارج ہوتی رہتی، تاہم اب یہ ممکن نہیں ہو گا۔

مشن سے وابستہ ٹیم کے ایک اور رکن کوئن گورئٹس کے مطابق، ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہاں سورج کی روشنی ہماری توقعات سے بہت کم پہنچ رہی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’ظاہر ہے کہ اس کے اثرات طویل عرصے تک تحقیقات کرنے کی صلاحیت پر مرتب ہوں گے۔ بدقسمتی سے یہ وہ صورت حال نہیں، جس کی ہم امید کر رہے تھے۔‘‘

واضح رہے کہ بدھ کے روز خلائی گاڑی فیلے کو دس برس تک اس سیارچے 67P/Churyumov-Gerasimenko کا تعاقب کرنے والے خلائی جہاز روزیٹا سے اتارا گیا تھا۔ اس وقت یہ سیارچہ زمین سے 311 ملین میل دور ہے اور 41 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔

اس تقریباﹰ ساڑھے چار بلین سال پرانے برفانی سیارچے پر اس خلائی تحقیقاتی مشن کو اتارنے کا مقصد نظام شمسی کی تخلیق اور زمین پر پانی کی موجودگی کے محرکات و اسباب کا جائزہ لینا ہے۔