’سیاستدانوں کو جنرل باجوہ کے بیان کی مخالفت نہیں کرنا چاہیے‘
19 مارچ 2021جنرل قمر باجوہ نے کل پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا،'' ہمیں ماضی کو دفن کر آگے بڑھنا چاہیے۔‘‘ اس بیان پر تنقید نہ صرف پاکستان کے کئی حلقوں میں ہو رہی ہے بلکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری تنظیمیں بھی اس بیان کو ہدف تنقید بنارہی ہیں۔
بیان میں خلوص کی کمی
پاکستان انڈیا پیپلز فورم فارپیس اینڈ ڈیموکریسی کے رہنما راحت سعید کا کہنا ہے اخلاص پر مبنی نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی فوج جنگ نہیں چاہتی کیونکہ روایتی جنگ میں پاکستانی فوج کا نقصان ہوگا لیکن یہ کہنا کہ اسٹیبلشمنٹ بھارت کے ساتھ مذاکرات اور بھارت دشمنی ختم کرنا چاہتی ہے، یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس کا پورا انحصار ہی بھارت دشمنی پر ہے جب کہ دونوں ملکوں کے عوام امن ہم چاہتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف کا یہ بیان بین الاقوامی برادری کو جتانے کے لیے ہے کہ دیکھیں پاکستان تو امن چاہتا ہے لیکن بھارت نہیں،''لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امن کے لیے اسٹیبلشمنٹ کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانا نہیں چاہتی اور یہ بیان صرف بین الاقوامی برادری کے لیے ہی ہے۔ ‘‘
پاکستان کے سویلین رہنما بھارت کے ساتھ امن کی کئی بار کوششیں کر چکے ہیں۔ انیس سو اٹھاسی میں جب بینظیر بھٹو کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس نے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے خلاف شدید پروپیگنڈا کیا گیا۔ نواز شریف کی پہلی اور بے نظیر کی دوسری حکومتوں نے مذاکرات کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ تاہم نواز شریف کی حکومت جب دوسری مرتبہ اقتدار میں آئی تو اس نے اعلان لاہور کیا لیکن اس معاہدے کے فورا بعد ہی کارگل کے آپریشن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔
نواز شریف کی اخلاقی فتح
نون لیگ کا کہنا ہے کہ جب سویلین رہنما بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی بات کرتے ہیں تو ان پر دشنام طرازی کی جاتی ہے اور ان کے خلاف محاذ کھول دیے جاتے ہیں۔ پارٹی کی رہنما عظمی بخاری کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کے بیان سے نوازشریف کی اخلاقی فتح ہو گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''نواز شریف نے جو باتیں بھی کیں، وقت اور حالات نے ان کو بالکل صحیح ثابت کیا۔ جب ہم نے بھارت سے امن کی بات کی اور اپنے گھر کو صحیح کرنے کی بات کی توڈان لیکس سامنے آ گئے اور ہماری حکومت کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوگیا۔ لیکن آج وہی بات کی جا رہی ہے، جس کا ذکر نوازشریف کرتے تھے۔‘‘
مثبت کوشش
لیکن کئی مبصرین آرمی چیف کے اس بیان کو انتہائی مثبت قرار دے رہے ہیں اور اس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کو بالکل یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کے کسی بھی اقدام کی مخالفت کریں،''خود نواز شریف کا کہنا ہے کہ بھارت سے تعلقات اچھے ہونے چاہیں اور انہوں نے تعلقات کی بہتری کے لیے اقدامات بھی کیے۔ اب اگر اسٹیبلشمنٹ تعلقات اچھے چاہتی ہے تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تمام جماعتوں کو اس کی حمایت کرنا چاہیے کیونکہ اگر خطے میں امن ہو گا تو فوج کا سیکورٹی کا بیانیہ کمزور پڑے گا اور ملک میں جمہوری قوتیں طاقتور ہو گیں۔‘‘
سیاسی جماعتوں کی تنگ نظری
ڈاکٹر امان میمن کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی تنگ نظری ہے کہ وہ صرف قلیل مدتی مفادات کے لیے آرمی چیف کے بیان کی مخالفت کر رہی ہیں،''سیاسی جماعتوں کا عجیب رویہ ہے کہ جب ایک جماعت بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی بات کرتی ہے تو دوسری جماعت اس کی مخالفت کرتی ہے۔ جب نواز شریف نے کچھ برس پہلے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی بات کی تھی تو بلاول بھٹو زرداری نے کشمیر میں مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کا نعرہ لگا یا اور اب اگر اسٹیبلشمنٹ بھارت سے تعلقات بہتر کرنا چاہ رہی ہے، تو سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں، جس سے یہاں پر مولوی اور مذہبی انتہا پسند جماعتیں مضبوط ہوں گے۔‘‘
پاکستان اسٹیٹس کو چاہتا ہے
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی جنرل باجوہ کے بیان پرگرما گرم بحث جاری ہے۔کشمیری قوم پرست حلقوں کا خیال ہے کہ یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان متنازعہ علاقے میں اسٹیٹس کو چاہتا ہے۔ پاکستان کے زیر انتطام کشمیر میں کام کرنے والی جے کے ایل ایف کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان پہلے اقدامات کرے،''بجائے اس کے آرمی چیف بھارت سے کہیں کہ وہ پہل کرے پاکستان کو خود پہل کرنا چاہیے اور اپنی فوجیں یہاں سے نکالنی چاہیے۔ پاکستان کو گلگت بلتستان اور کشمیر کو ایک خود مختار علاقہ بنانا چاہیے، جی بی میں اسٹیٹ سبجیکٹ رول بحال ختم کرنا چاہیے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بیان سے لگتا ہے کہ پاکستان اسٹیٹس کو چاہتا ہے،''ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد کشمیر کی تقسیم کے فارمولے پر عمل پیرا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو حصہ کشمیر کا انڈیا کے پاس ہے، وہ بھارت رکھ لے اور جو حصہ پاکستان کے پاس ہے وہ پاکستان رکھ لے لیکن دونوں اطراف کے کشمیری اس کو بالکل قبول نہیں کریں گے۔‘‘
موقف میں تبدیلی نہیں
تاہم دفاعی مبصرین اس بات کو غلط قرار دیتے ہیں کہ پاکستان اپنی پوزیشن تبدیل کر رہا ہے۔ دفاعی مبصرجنرل امجد شعیب نے اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو کو بتایا،''پاکستان اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کررہا ہے۔ بھارت نے کافی عرصے سے دہشت گردی کی رٹ لگائی ہوئی ہے اور کہتا ہے کہ پاکستان پہلے دہشت گردوں کی حمایت ترک کرے پھر مذاکرات ہوں گے۔ آرمی چیف نے اس رویے کو دفن کرنے کی بات کی ہے کیونکہ اس بھارتی رویے کی وجہ سے مذاکرات کبھی آگے تک نہیں پہنچ سکے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ خود بھارت میں بھی دانشوروں کا ایک طبقہ ہے جو سمجھتا ہے کہ بھارت سمیت خطے کے دوسرے ممالک سے بھارت کے تعلقات بہترہونے چاہییں،''تاہم ایسا کرنا مودی کے لیےآسان نہیں کیونکہ تعلقات بہتر کرنے کے لیے اسٹیٹ سبجیکٹ رول بحال کرنا پڑے گا اور ایسا کرنا ان کے لیے سیاسی خودکشی ہو گی۔‘‘