1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاہ لکیر کے قیدی

انعم صبا
6 مارچ 2019

لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کمشیریوں کو کس انداز کے مسائل کا سامنا ہے؟ انعم صبا کا ایک مشاہداتی بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3EWLl
Pakistan Kaschmir Grenze zu Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

پکی سڑک نجانے کب پیچھے رہ گئی۔ جیپ کی عقبی نشست پر بیٹھے مظفرآباد سے وادی نیلم کےسفرمیں مجھے کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ نصف شب کا وقت اور تھکاوٹ نیند لینے پر مجبور کر رہی تھی۔ پہاڑوں کے دامن میں بل کھاتی کچی سڑک پر اچھلتی جیپ میں سکون سے گہری نیند سونا تو ممکن نہیں تھا البتہ اونگھ آ جاتی تھی۔ مقامی ڈرائیور پوری توجہ اورمہارت سے تنگ اور دشوار گزار پتھریلے راستے پر گاڑی چلا رہا تھا کہ ہزاروں فٹ گہری کھائیاں متعدد مسافرگاڑیوں کو نگل چکی تھیں۔ میں آنکھیں موندے تاوبٹ تک کے صبرآزما اورطویل سفرکا سوچ رہی تھی کہ ڈرائیور کی آواز نے چونکا دیا۔ وہ بتا رہا تھا، اس وقت ہم ٹیٹوال سیکٹر میں کنٹرول لائن پربھارتی گدرپوسٹ کے سامنے سے گزرتے ہوئے ان کی بندوقوں کی زد میں ہیں اوریہ ہمارے بائیں ہاتھ پاکستانی مورچے ہیں۔ میں نے بے ساختہ جھرجھری لی اور باہر تاریکی میں جھانکا جہاں بلند پہاڑوں کے ہیولوں اور گاڑی کے پیچھے اڑتی دھول کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں کوئی دیوار، خاردارتار یا ایسی علامت نہ ڈھونڈ پائی جسے کسی سرحد سے تعبیرکیا جاتا۔ ڈرائیوربتا رہا تھا نوے کی دہائی میں اسی راستے پر ایک مسافربس کے سارے مسافرگولیوں کا نشانہ بن گئے تھے۔ یہ واحد راستہ ہے جووادی نیلم کی لاکھوں افراد پر مشتمل آبادی آمد ورفت کے لیے استعمال کرتی ہے۔

فائرنگ شدت اختیار کر جائے تو مریضوں کوہنگامی حالات میں مظفرآباد کے ہسپتالوں تک پہنچانے اور کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل کے لیے لیسوا اورسرسانگھڑ بائی پاس نامی متبادل مگر انتہائی مشکل راستے اختیارکرنا پڑتے ہیں۔ برف باری سے یہ راستے بھی بند ہو جائیں تو مقامی آبادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ کٹ جاتا ہے۔ میں سڑک کی دوسری جانب بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی بستیوں کو دیکھنے لگی جہاں رات کے اس پہر ہوکا عالم تھا۔ میں سوچتے سوچتے دور نکل گئی۔ سن 1947 سے جاری اس قضیے کا لب لباب یہ ہے کہ بھارت سرکارکشمیرکو ڈوگرہ مہاراجہ سے پچہترلاکھ نانک شاہی کےعوض خریدنے کے دعوے کے بعد اسے ’بھارت ماتا کا اٹوٹ انگ‘ کہتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کشمیرسے اپنے جغرافیائی، ثقافتی، لسانی اورمذہبی تعلق کے تناظرمیں اسے اپنی ’شہ رگ‘ مانتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان لڑائی کی آگ چھمب جوڑیاں کے میدانوں سے لے کر دراس و کارگل کے کہساروں اوردنیا کے بلند ترین میدان جنگ سیاچن کے برف زاروں تک سلگتی، بھڑکتی چلی آئی ہے۔

اس ضمن میں کشمیری کیا سوچتے اورچاہتے ہیں اس کے اظہار اورتسلیم شدہ حق رائے دہی کی نوبت تاحال اس لیے نہیں آسکی کہ عشروں سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے دیمک زدہ الفاظ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل سے نکل کر کشمیرمیں ووٹ کی پرچی تک نہیں پہنچ پائے۔ نتیجہ یہ کہ گھر ویران اورقبرستان آباد ہوتے چلے گئے۔

Anum Saba
تصویر: privat

اٹھمقام پہنچے تو افق سے تاریکی کی چادر سرکنے لگی تھی۔ صبح کی خوشگوارخُنکی، خوشبو میں بسی ہوا اورنیلگوں آسماں پہ اڑتے روئی جیسے سفید بادل سفرکی تھکاوٹ جھاڑنے کو کافی تھے۔ ایک چھوٹے سے ریستوران میں انگیٹھی کے سامنے بیٹھ کر پراٹھے، لوبیا کی دال اور کڑک چائے کا ناشتہ مجھے کسی ضیافت سے کم نہ لگا۔ ابھی ہمارا نصف سفر باقی تھا، ڈرائیور نے گاڑی کا تیل، پانی اورانجن وغیرہ دیکھنا چاہا تو میں موقع غنیمت جان کر اگلے پڑاؤ سے پہلے چہل قدمی کی غرض سے ایک ڈھلان پرآگے بڑھ گئی۔  ساتھ ہی ایک ہسپتال دکھائی دیا جس کی دیواروں میں شگاف اور دروازے کھڑکیاں کٹے پھٹے تھے۔ میں نے ایک راہگیر خاتون کو روک کر اس حالت زار کی وجہ دریافت کی تو اس نے بلا تامل ہاتھ سے ایک بلند پہاڑی کی جانب اشارہ کر کے کہا وہاں اوپر ہندوستانی فوج کے مورچے ہیں اوریہ ہسپتال وہاں سے برسائے گئے توپوں کے گولوں اور گولیوں سے متاثر ہوا ہے۔  ہمارے لکڑی سے بنےگھراوردکانیں بھی جل جاتی ہیں۔ دو طرفہ جھڑپوں کے دوران ہم باہر تک نہیں نکل سکتے۔ جانیں بچانے کا فریضہ ادا کرنے والی عمارت کی ٹوٹ بھوٹ مجھے انسانی ضمیر میں پڑی دراڑ دکھائی دی۔ میں جا کرگاڑی میں بیٹھ گئی اور دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ سفر پھر سے جاری ہو گیا۔

ابھرتے سورج کی سنہری کرنوں سے پھوٹتی حدت، ہرجانب بچھے مخملیں سبزے، کائل اور دیودار کے گھنے جنگل اور سنگلاخ راستے کے پہلو میں بہتے دریا کے زمرد اور فیروزے کی رنگت والے شفاف پانی نے اداس طبیعت شاداں و فرحاں کر دی تو احساس ہوا کشمیرکو’جنت ارضی‘ کیوں کہا جاتا ہے۔ کیرن نامی قصبے کے قریب دریا کا پاٹ مزید تنگ ہو گیا تھا۔ اچانک میری نگاہ دریا کے دونوں جانب جمع سینکڑوں لوگوں پر پڑی تو پہلا خیال یہ آیا کہ خدا نخواستہ کوئی دریا میں ڈوب نہ گیا ہو۔ میں مخمصے میں تھی کہ ڈرائیوربولا، آج ملاقات کا دن ہے۔ خدایا ! کیسی ملاقات، کس کی ملاقات، جہاں کوئی پل، کوئی راستہ نہیں وہاں سب کیوں جمع ہیں۔ گاڑی سڑک کنارے رکی تومیں قدم اٹھاتی ہجوم میں جا پہنچی۔  پھر مجھے یوں لگا کسی ماتم کدے میں کھڑی ہوں جہاں کسی ماں کا جواں سال بیٹا زندگی کی بازی ہار گیا ہواورلوگ پرسہ دینے آئے ہوں۔ لیکن وہاں کوئی میت نہ تھی۔ گلابی رخساروں پہ بہتے آنسو لیے مرد و زن دریا کی دوسری جانب کھڑے افراد سے مخاطب تھے۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ دیکھا تو ایک دو جگہ دریا میں پانی قدرے کم گہرا دکھائی دیا۔ کوئی آرام سے دریا پار کر سکتا تھا لیکن لوگ وہ چند قدموں کی مسافت عبور نہیں کر رہے تھےکیونکہ وہ کوئی عام دریا نہیں کنٹرول لائن تھی۔ اس جگہ آدھا آدھا دریا بھی دونوں ملکوں میں بٹا ہوا تھا۔ مجھے سمجھ آ گئی یہ کیسی ملاقات جاری ہے۔  بہن ادھر تھی تو بھائی ادھر، پوتا اس جانب تھا تو دادی اس پار۔ تقسیم شدہ خاندانوں کے بکھرے افراد آج ایک دوسرے کو گلے لگانےاورمدتوں کی جدائی کا غم سینوں سے نکال پھینکنے کو بے تاب تھے۔ سالوں بعد ایسا موقع میسر آیا تھا کہ وہ اپنے پیاروں کو خط لکھ کے اطلاع بھجوا سکیں۔ فلاں دن ہم کیرن پہنچ جائیں گے، تم بھی آ جانا۔ ہاتھ نہ تھام سکے تو کیا، چہرے تو دیکھ لیں گے۔ اس لمحے میں نے لبوں کو چوم کر فضا میں بلند ہوتے کئی ہاتھ دیکھے، جیسے وہ اپنے بے قرار کلیجوں میں گھٹے بوسوں کی امانت سرسراتی ہواؤں کے سپرد کر رہے ہوں۔  مجھ سے اپنے قدموں پہ مزید کھڑا رہنا محال ہو گیا۔ میں ایک پتھر پہ گم سم بیٹھ گئی۔ یہ کیسی جنت تھی جہاں اتنا درد تھا۔ جہاں سانس لیتے انسان سے بڑھ کے بالشت بھر زمین اہم تھی۔ جہاں برسوں سے بچھڑے دلوں کی سسکیاں آسمان کی وسعتوں میں گم ہو رہی تھیں۔ وہ پانی جو ہر ذی روح کی بنیاد حیات ہے، کیرن میں ایک سیاہ لکیر بن کر انسانوں کے درمیان حائل تھا۔ کشمیر کے تنازعے نے پسماندگی سے دوچار ایک وسیع خطے کو اسلحے کی دوڑ میں دھکیل کر آج ایک ایسے آتش فشاں کے دہانے پہ لا بٹھایا ہے، جو پھٹا تو لکیر اور لکیر کے فقیر، کچھ باقی نہ بچے گا۔ یہ اپنے دامن میں نیوکلیائی ہتھیار سمیٹے ایک مسلسل سلگتے خطے کا ایسا نوحہ ہے جوعالمی امن کی سماعت سے کسی دھماکے کی صورت ٹکرایا توکروڑوں انسانوں کو رلا بھی سکتا ہے اور راکھ بھی کرسکتا ہے۔

آج جنگوں کی غارت گری، ہولناکی اور اذیت سے نا آشنا لوگوں کو لمحاتی اور جذباتی جنگی جنون میں مبتلا دیکھ کر مجھے کیرن کے اس دورافتادہ قصبے میں دریا کے دونوں جانب حسرت سے تکتی وہ فریادی آنکھیں یاد آتی ہیں، جن سے بہتے کاجل نے اس روز زمرد جیسا اجلا دریا سیاہ کرڈالا تھا۔ وہ جسے پاکستان میں نیلم اور بھارت میں کشن گنگا پکارا جاتا ہے، اس جلترنگ دریا میں ان گنت ان سنی آہیں بھی جذب ہیں۔

 بعد ازاں میں متعدد باراس طلسماتی رہگذر کے آخری گاؤں تاوبٹ تک گئی اورپلٹی ہوں۔ اس دوران کشمیریوں کی ادھوری اور بے مثل ملاقاتوں کا وہ عارضی سلسلہ بھی پابندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ دل پہ بھاری پتھر رکھ کے جب بھی کیرن سے گزرتی ہوں، تو نگاہ بے اختیاراس جانب اٹھ جاتی ہے۔ اب وہاں ہجوم نہیں ہوتا بس دریا کا وہ اجڑا کنارا اداس رہتا ہے۔ برفانی چوٹیوں سے بہہ کر آنے والا سرد پانی وہاں آج بھی رواں ہے لیکن میرے لیے وہ سیاہ لکیر کے دونوں جانب کھڑے مرد و زن کی آنکھوں سے ٹپکتے گرم آنسووں کا ریلہ ہے، جو بسا اوقات اس مقام سے سینکڑوں اور ہزاروں میل کی دوری پر بھی مجھے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔

نوٹڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔