پاکستان کے متعدد علاقوں میں کم از کم گزشتہ دو ہفتوں سے سیلابی پانی کھڑا ہے، جس میں کچرا اور گندگی بھی کثیر مقدار میں شامل ہیں۔ اس پانی میں ڈوبے لوگوں میں کیا کیا بیماریاں پنپ رہی ہو گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن جو خواتین سیلاب کی تباہی کے ساتھ ساتھ ماہواری یا حمل کا درد بھی سہہ رہی ہیں، ان کا کوئی پرسان حال ہی نہیں تو سدباب کیسے ہو گا؟
ماہواری کے دورانیے سے گزرنے والی خواتین میں دیگر افراد کے مقابلے میں وبائی امراض اور انفیکشن کے خدشات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ خواتین میں فنگل انفیکشن اور ایسی کئی پیچیدہ جنسی بیماریوں کی اطلاعات ہیں، جن کا بروقت علاج ضروری ہے۔
ہم اپنے محفوظ علاقوں کے گھروں میں بیٹھ کر اتنا بھی اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس سیلابی صورتحال میں حاملہ اور ماہواری کا شکار خواتین کس اذیت سے دو چار ہوں گی۔ ایک جانب ایسی خواتین کے گھر، روزگار، مال مویشی اور خاندان کے افراد ختم ہو گئے ہیں تو دوسری جانب ان خواتین کے ایسے پوشیدہ مسائل انہیں مزید ذہنی خلفشار اور جسمانی بیماریوں کا شکار کر رہے ہیں۔
جب کھانے پینے اور جان بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہوں تو اس صورتحال میں خواتین ماہواری کے لیے کپڑوں یا سینیٹری پیڈز کا انتظام کہاں سےکریں گی؟ سیلاب زدہ علاقوں میں زیادہ تر امدادی کارکن مرد ہی ہیں تو وہ خواتین کے ان پوشیدہ لیکن سنجیدہ مسائل سے لا علم ہیں اور متاثرہ خواتین بھی ان مرد امدادی کارکنوں سے اپنے ان معاملات کو بیان نہیں کر سکتیں۔
دیہی علاقوں کی خواتین ویسے ہی غذائیت اور خون کی کمی کا شکار ہوتیں ہیں اور اب اس قدرتی آفت کے نتیجے میں غذا کی قلت انہیں مزید بیمار اور کمزوری کا شکار کر دے گی۔
ان میں بہت سی دودھ پلانے والی خواتین بھی ہیں، جن کے شیر خوار بچے ہیں۔ ایسی ماؤں کو زیادہ غذائیت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کے شیر خواروں کو پیٹ بھر دودھ مل سکے لیکن سیلاب نے ان کے لیے جینے کا تمام ذرائع مسدود کر دیے ہیں۔
سیلابی آفت کے نتیجے میں کتنی حاملہ خواتین اس سیلاب کی نذر ہو گئیں ہیں، یہ حقیقت شاید کبھی منظر عام پر نہیں آ پائے گی۔ سیلابی علاقوں میں حد نگاہ تک سوائے پانی کے دور دور تک کچھ اور نظر نہیں آتا۔ پکی سڑکیں نا ہونے کی وجہ سے متاثرین چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر امداد کے منتظر ہیں اور ان میں ہزاروں کی تعداد میں ایسی حاملہ خواتین بھی شامل ہیں، جو زچگی کے آخری مراحل میں ہیں۔ انہیں امداد میں وہ اشیاء فراہم کی جانا چاہئیں، جو واقعی ان کے کام آ سکیں۔
خواتین کے مخصوص ایام اور ولادت کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے فیلڈ میں موجود تمام امدادی کارکنوں کو آگاہی دی جانا چاہیے تاکہ وہ عورتوں کی ان فطری ضروریات کو ایک انسانی معاملے کے طور پر دیکھ سکیں۔
امدادی سامان میں سینیٹری پیڈز، روئی، صاف اور ملائم کپڑے ترجیحی بنیادوں پر شامل کریں کیونکہ خواتین کی بقا میں ہی ہماری بقا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔