سینکڑوں علیحدگی پسند بلوچوں نے ہتھیار ڈال دیے
22 اپریل 2017پاکستان اپنے صوبہ بلوچستان میں حالات کو بہتر بنانے اور علیحدگی پسند بلوچوں کی مسلح سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے ان کے ساتھ تیزی سے امن معاہدے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے حکومتی اداروں نے ہتھیار پھینکنے والے مسلح باغیوں کے لیے مختلف قسم مراعات کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جمعے کے روز تقریبا 487 بلوچ علیحدگی پسندوں نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور ان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے آٹھ سینئر کمانڈر بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے ایک تقریب کا انعقاد دارالحکومت کوئٹہ میں کیا گیا، جہاں ان باغیوں نے ہتھیار حکام کے حوالے کیے۔
اس تقریب کے موقع پر باغیوں نے پاکستانی ریاست کا ساتھ دینے کا عہد کیا جبکہ تقریب میں صوبائی وزیر اعلیٰ نے بھی شرکت کی۔ معدنیات کی دولت سے مالا مال بلوچستان میں سن 2004 کے بعد سے حکومت کو باغیوں کی مسلح سرگرمیوں کا سامنا ہے۔ تب سے جاری اس دو طرفہ لڑائی میں سینکڑوں حکومتی فوجی اور باغی ہلاک ہو چکے ہیں۔
حالیہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں ہونے والی مسلح سرگرمیوں میں واضح کمی واقع ہوئی ہے کیوں کہ حکومت نے ترقی اور امن کے لیے تیزی کے ساتھ بڑے منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں شروع ہونے والے ترقیاتی منصوبے سی پیک کا حصہ ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری کا تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ان عسکریت پسندوں نے میرے بیٹے اور بھائی کو قتل کیا لیکن میں ان سب کو معاف کرتا ہوں۔ حکومت پاکستان نے بھی ان کو معاف کیا ہے۔ میں انہیں بلوچستان کے سی پیک منصوبے کا حصہ بننے پر خوش آمدید کہتا ہوں۔‘‘
وزیر اعلیٰ کا مزید کہنا تھا، ’’ہم آپ کو روزگار کے مواقع فراہم کریں گے اور کسی کو صوبے کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
جن باغیوں نے ہتھیار ڈالے ہیں ان میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچستان ریپبلکن آرمی (بی آر اے)، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور لشکر بلوچستان کے اراکین شامل ہیں۔
گزشتہ پندرہ برسوں سے حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے والے بی آر اے کے سابق ترجمان سرباز بلوچ کا کہنا تھا، ’’ہمیں براہمداغ بگٹی نے گمراہ کیا تھا۔ ہمیں اب پتا چلا ہے کہ وہ بھارت کے لیے کام کرتا ہے۔ ہمیں اپنے ہی ملک میں کسی دوسرے ملک کے لیے لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
علیحدگی پسند بلوچ لیڈر براہمداغ بگٹی نے یورپ میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے جبکہ انہوں نے ایسی ہی ایک درخواست بھارت میں بھی دی ہے، جسے پاکستان کا روایتی حریف تصور کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب بلوچ علیحدگی پسند اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ایسے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں کہ اپنے حقوق کے لیے لڑنے والے بلوچوں کو اچانک لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور انہیں ماورائے قانون ہلاکتوں کا سامنا ہے۔