سینیٹ انتخاب، اسٹیبلشمنٹ پھر متحرک؟
11 مارچ 2021سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے جمعے کو ووٹنگ ہوگی۔ اس عہدے کے لیے حزب اختلاف کی طرف سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی امیدوار ہیں جبکہ ڈپٹی چیئرمین کے لیے جے یو آئی ایف کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری میدان میں ہیں۔
حکومت کی طرف سے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ جبکہ مرزا محمد آفریدی ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔
سیاسی حلقوں میں خدشہ ہے کہ اس الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ پھر نتائج پر اثرانداز ہو رہی ہے۔
اس بحث نے مزید زور اس وقت پکڑا جب نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز شریف نے اپنی ایک ٹویٹ میں یہ انکشاف کیا کہ ان کے سینیٹرز کو ٹیلیفون کالز آرہی ہیں اور انہیں کہا جارہا ہے کہ حکومتی امیدواروں کو ووٹ دیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ان کے کچھ سینیٹرز نے ان کالز کو ریکارڈ بھی کیا ہے۔
ان خدشات کو وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے اس بیان سے بھی تقویت ملی جس میں انہوں نے کہا کہ کل یکطرفہ میچ ہوگا۔ اس سے پہلے وفاقی وزیر شبلی فراز بھی کہہ چکے ہیں کہ سینیٹ میں اقلیت میں ہونے کے باوجود حکومت وہاں اپنی اکثریت ظاہر کرنے کے لیے سب کچھ کر سکتی ہے۔
حزب اختلاف کے مطابق حکومتی وزرا کے ان بیانات سے واضح ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر اپنا کھیل کر رہی ہے۔
نواز لیگ کا دعوی
نواز لیگی رہنما عظمیٰ بخاری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،"نون لیگ کے سات سے آٹھ سینیٹرز کو دھمکی دی گئی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ حکومتی امیدواروں کو ووٹ دیں۔ ان سینیٹرز نے مریم نواز اور میاں نواز شریف کو مطلع کر دیا ہے۔اس کا بالکل صاف مطلب ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں ہے۔"
انہوں نے کہا کہ اگر زبردستی کی گئی تو حزب اختلاف کا لانگ مارچ بہت خطرناک شکل اختیار کر جائے گا اور پھر نون لیگ بہت ساری چیزیں منظرعام پر لانے پر مجبور ہو جائے گی۔
عسکری قوتیں انتہائی متحرک
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماء اور سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ صرف لوگوں کو ٹیلی فون کالز ہی نہیں کر رہی بلکہ وہ بہت زیادہ متحرک ہے۔
"صرف کالز ہی نہیں بلکہ ملاقاتیں بھی کی جارہی ہیں۔ سینیٹرز پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ حکومتی امیدواروں کو ووٹ دیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی وزراء یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ صادق سنجرانی ریاست اور وزیراعظم کے نمائندہ ہیں۔
"اس وضاحت کے بعد کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ریاستی ادارے غیر جانبدار ہیں یا نہیں۔"
پی پی پی کا موقف
تاہم پیپلز پارٹی بظاہر اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے سے گریز کرتی نظر آرہی ہے۔ پی پی کے رہنما چوہدری منظور احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،"میں قصور میں ہوں اور میرے علم میں نہیں کہ آیا کہ انہوں نے ہمارے سینیٹرز سے رابطہ کیا ہے یا نہیں۔ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔"
تاہم اردو روزنامہ جنگ کی ایک خبر کے مطابق سابق وزیراعظم اور سینیٹ میں چیئرمین شپ کے امیدوار یوسف رضا گیلانی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ایجنسیاں سینیٹرز سے رابطے کر رہی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ ووٹ کے حوالے سے ابھی تک کوئی کال موصول نہیں ہوئی۔
الزامات میں وزن ہے
سینیٹر اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کے الزامات میں وزن ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں حاصل بزنجو کے ساتھ جو ہوا اس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ "ضروری نہیں کہ اگر سینیٹ میں آپ کی اکثریت ہے تو الیکشن بھی آپ ہی جیتیں گے۔ حکومت کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اور اس کے پاس بہت سارے وسائل ہیں، جن کا بھرپور وہ استعمال کرے گی۔"