شادی تو خانہ آبادی ہوتی ہے!
29 جون 2020سماجی اعتبار سے شادی ایک ایسا معاہدہ ہے، جس میں باہمی رضامندی کے ساتھ دو افراد ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ عمومی طور پر اس فیصلے کی بنیاد محبت، خوشی، ذہنی ہم آہنگی اور برابری کی بنیاد پہ رکھی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں مگر معاملہ کچھ اور ہے۔ ڈی ڈبلیو ہی کی ایک خبر کے مطابق پاکستان میں اکیس فیصد لڑکیوں کی شادی اٹھارہ سال کی عمر سے قبل ہی کر دی جاتی ہے جبکہ تیرہ فیصد بچیاں تو اپنی عمر کے چودہویں سال میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔
اخبارات اٹھا لیجیے، ہر دوسرے روز آپ کو ہمارے ملک میں ہونے والی کسی ایسی شادی کے بارے میں خبر ملے گی، جس میں خاص کر لڑکی اور بعض اوقات لڑکے اور لڑکی دونوں کی رضامندی شامل نہیں ہو گی۔
یہ بھی پڑھیے: ’کم سنی کی شادی مسئلہ تو ہے‘ مگر حل کیا ہے؟
کبھی شادی کی غرض سے تھر کی ایک ہندو لڑکی کے اسلام قبول کرنے کی خبر ملے گی تو کبھی کم عمر لڑکی کے اس سے دوگنا عمر کے مرد سے شادی کی خبر ہو گی۔ کبھی کسی جرگے کے فیصلے پر لڑکے کو سزا یہ دی جائے گی کہ اس کی بہن کی شادی فلاں لڑکے سے کر دی جائے۔ یہ خبر بھی مرچ مصالحے کی ساتھ لگائی جاتی ہے کہ لڑکی کی شادی کے لیے والدین کے مجوزہ رشتے پر رضامند نہ ہونے پر اسے قتل کر دیا گیا۔
اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر ہی دیکھ لیں، آپ نے بہت سی شادیاں ہوتی دیکھی ہوں گی۔ رشتہ ہونے سے لے کر شادی ہونے تک ، سارے مراحل میں، جس بات کی سب سے کم اہمیت ہوتی ہے، وہ ہے لڑکا اور لڑکی کی رضامندی۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ مسائل ہر جا نظر آتے ہیں۔
پہلی کوشش ہوگی کہ شادی اپنے ہی خاندان میں ہوجائے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر ذات برادری کا دھیان رکھنا ہے۔ مالی آسودگی بھی دیکھنا ہے، مسلک کو لازما پرکھنا ہے اور مذہب سے باہر شادی کا تو تصور ہی مت کیجیے۔ پھر شادی کی تیاریوں میں ہونے والی گفتگو بہت دلچسپ ہوتی ہے۔ کوئی حق مہر کے بارے میں رائے دے رہا ہوتا ہے تو کوئی جہیز کا ذکر چھیڑے بیٹھا ہے۔
کسی کو شادی بیاہ کی رسومات میں دلچسپی ہے تو کوئی کھانے کا مینیو طے کرنے میں پیش پیش ہے۔ کسی کو یہ فکر ہے کہ بارات کا استقبال ڈھنگ سے کیا جائے تو کوئی مہمانوں کی فہرستیں بنانے میں مگن ہے۔
تو کیا شادی بس انہی چیزوں کا نام ہے؟ کیا یہ لوازمات شادی کے کامیاب ہونے کی علامت ہیں ؟ کیا ان سب کارروائیوں کے بعد آسودہ زندگی کی ضمانت دی جا سکتی ہے؟ بالکل نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بارہ سالہ زہرا کو پاکستان پہنچا کر اس کی جبری شادی کر دی گئی
ہم جانتے ہیں کہ آسودگی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب محبت، خوشی اور باہمی رضامندی و احترام کے ساتھ یہ معاہدہ طے کیا جائے اور اس بندھن کو بغیر کسی دباؤ کے ختم کرنا بھی شادی شدہ جوڑے کے اختیار میں ہو۔
کم سے کم کی مثال بھی دی جائے تو ہمارے پاکستانی معاشرے کی تقریبا ستر سالہ روایت ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے ہاں شادی خاص طور پر عورت کے لیے شاذونادر ہی آسودگی کا باعث بنتی ہے۔ عام مشاہدے کے مطابق خواتین کو بس گھر کا کام کرنا ہوتا ہے اور بچے اور بالخصوص لڑکے پیدا کرنا ہوتا ہے۔
یہ عالم تو دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے کہ لوگ شعوری یا لاشعوری طور پر خواتین کو مردوں سے کم تر سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان میں زیادہ تر خواتین کا بھی یہی خیال ہے۔ شادی کے ان مسائل کی بنیادی جڑ تو رضامندی کا نہ ہونا ہے لیکن مسائل زیادہ گھمبیر اس وقت ہوجاتے ہیں جب معاشی مسائل بھی جنم لے لیتے ہیں۔
سوچیے ماں باپ لڑکا پیدا ہونے کی خواہش آخر کیوں کرتے ہیں؟ کیوں طلاق یافتہ عورت کو ترحم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے؟ لڑکی کو دبے لفظوں یہ نصیحت کیوں کی جاتی ہے کہ جس گھر میں تمہاری ڈولی گئی ہے وہاں سے تمہارا جنازہ اٹھنا چاہیے۔
اس ساری صورتحال کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ مختلف واقعات کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے، کبھی کسی بہو کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے تو کہیں عورت کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازم پیشہ عورت پر نوکری چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے اور اسے گھر کے کاموں کے لیے پابند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: 'پاکستان کی ہندو عورتیں اب جبری طور پر مذہب کی تبدیلی سے محفوظ‘
حتیٰ کہ شادی کے فوراً بعد بچہ پیدا کرنے کی تاکید بھی اسی غرض کی جاتی ہے کہ عورت علیحدگی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ کورونا کے حالیہ ایام اس لحاظ سے بہت کچھ سکھا رہے ہیں۔ شادی شدہ جوڑوں کو پہلے سے زیادہ وقت ایک ساتھ گزارنے کا موقع مل رہا ہے اور بے شمار ایسے گھرانے ہیں، جہاں عورتوں پر گھریلو تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں جاری رہنے والی شادیاں کیا واقعی کامیاب شادیاں کہلانے کے قابل ہیں ؟ کیا ایسی سب شادیاں جبری نہیں؟
کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم اپنے معاشرے کو ان خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کریں، جہاں عورت اور مرد برابری کی سطح پر زندگی گزار سکیں اور اپنی زندگی کے فیصلے خود کرسکیں؟ تاکہ روایات سے چھٹکارا ملے اور لوگ آزادی کا سانس لے سکیں۔