میری دادی اماں کی آخری خواہش تھی کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے پوتے کی شادی دیکھ لیں اور یہ خواہش بھی تھی کہ شادی بھی فلاں کی بیٹی کے ساتھ ہو۔ کہانی میں ٹویسٹ تب آتا ہے جب وہی دادی شادی کے پانچ۔چھ سال بعد صحت یابی کے ساتھ اب دوسرے خاندان کے بچوں کو یہ بتا رہی ہوتی ہیں کہ ان کی آخری خواہش کیا ہے۔ اس کہانی کی ٹیگ لائن سے ہم میں سے بہت سے لوگ اعتراف میں سر ہلائیں گے۔ مجھے تکلیف دادی اماں کی صحتیابی سے نہیں ہے، بلکہ جذباتی بلیک میلنگ سے ہے، جو ہمارے معاشرے میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ شادی کے نام پر کی جاتی ہے۔
ایسے واقعات مجھے میرے بچپن کی یادیں تازہ کرا دیتے ہیں، جب میں شاہ رخ اور کاجول کو کسی فلم میں ساتھ دیکھتی تھی اور میری آخری خواہش یہ ہوتی تھی کہ بس کاجول اور شاہ رخ شادی کر لیں۔
نیٹ فلیکس کا پیریڈ ڈرامہ بریجرٹن اپنے رومانوی دنیا اور سماجی رکھ رکھاؤ سے سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ یہ ڈرامہ ریجنسی دور کے انگلینڈ میں ترتیب دیا گیا ہے، جو بریجرٹن خاندان کی زندگیوں اور اعلیٰ معاشرے کے ساتھ ان کے تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ اگرچہ شاہانہ تقریبات اور رومانس کی دنیا، جدید دور کے پاکستان سے دور نظر آتی ہے، لیکن ایک باریک بینی سے جائزہ لینے سے بریجرٹن کی دنیا اور پاکستان میں موجودہ ازدواجی منظر نامے کے درمیان دلچسپ مماثلتوں کا پتہ چلتا ہے۔
بریجرٹن کے مرکزی موضوعات میں سے ایک نوجوان خواتین پر مناسب شوہر تلاش کرنے کا دباؤ ہوتا ہے۔ بریجرٹن کی دنیا میں شادی نہ صرف محبت کا معاملہ ہے بلکہ سماجی حیثیت اور مالی تحفظ کا بھی معاملہ ہے۔ اسی طرح، پاکستان میں بھی شادیوں پر بہت زور دیا جاتا ہے، جہاں خاندان اپنے بچوں کے لیے شریک حیات کے انتخاب میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگرچہ محرکات مختلف ہو سکتے ہیں، تاہم استحکام اور سماجی حیثیت کی بنیادی خواہش مشترکہ نظر آتی ہے۔
بریجرٹن میں نوجوان خواتین کو خوبصورت لباسوں میں معاشرے کے سامنے اس امید پر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اہل لڑکوں اپنی جانب متوجہ کر سکیں۔ یہ پاکستان میں رشتہ کلچر کے تصور کا آئینہ پیش کرتی ہے، جہاں ماں پاپ کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی ڈاکٹر یا انجینیئر بن جائے تو پھر اسے ایک اہل لڑکا ملنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔
پاکستان میں شادی کا کلچر صنفی عدم مساوات اور پدرانہ نظام کے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ خواتین کو اکثر ایسے معاشرتی اصولوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو گھر کے نگراں کے طور پر ان کے کردار کا تعین کرتا ہے، مرد پر انحصار کرنے کے کلچر کو جاری رکھتا ہے۔ اگر کوئی خاتون پروفیشنل ڈگری ہولڈر ہو تو اس سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پوری طرح سے مرد پر انحصار کرے اور گھر بیٹھ کر گھر کی نگرانی کرے؟
یہ روایات ثقافتی اور مذہبی اصولوں سے گہری جڑی ہوئی ہیں، اور یہ انفرادی آزادی اور انسان کی رضامندی کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہیں، خاندانی توقعات کے مطابق ہونے کا دباؤ ایسی شادیوں کا باعث بنتا ہے، جو ذاتی رضامندی اور جذباتی تکمیل پر سماجی حیثیت اور مالی استحکام کو ترجیح دیتا ہے۔
شادی کرنا، نہ کرنا یا کس انسان سے کرنا، یہ بہت ذاتی معاملہ ہے، جس میں دونوں انسانوں کی رضامندی لازمی ہے۔ ورنہ دادی اماں آج ہیں کل نہیں ہوں گی، لیکن دو انسان جنہوں نے ساتھ میں زندگی گزارنی ہے، ان کی رضامندی اور خوشی کی ذمہ داری کون لے گا؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔