شام سے متعلق امریکی موقف میں سختی
11 جون 2011شام میں جمعہ کو حکومت مخالف احتجاج کی روایت گزشتہ روز بھی قائم رہی، جس دوران مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ ترک اور شامی میڈیا کے مطابق شامی فورسز نے ترک سرحد کے قریب واقع شہر جِسر الشغور میں آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ دمشق حکام کے مطابق اس آپریشن کا مقصد رواں ہفتے کے آغاز میں ’مسلح دہشت گردوں‘ کی طرف سے 120 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانا ہے۔
ادھر وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے صورتحال پر امریکی حکومت کے ردعمل سے متعلق ایک بیان جاری کیا ہے۔ ’’امریکہ شامی حکومت کی جانب سے ملک بھر بالخصوص شمال مغربی خطے میں تشدد کے ظالمانہ استعمال کی مذمت کرتا ہے۔‘‘ ان کے بقول امریکہ نے اس سے قبل شامی حکومت سے درخواست کی تھی کہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور اپنے بیان کردہ نقصانات کے ازالے کے لیے مزید شہری ہلاکتوں کا سبب نہ بنے۔
فرانس اور برطانیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرار داد پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے، جس کے ذریعے شامی حکومت کی مذمت کی جائے گی۔ امریکہ سمیت سلامتی کونسل کے نو دیگر رکن ممالک نے اس کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ جے کارنی کے بقول امریکہ شامی عوام کے ساتھ ہے، جنہوں نے ذاتی وقار اور جمہویت کی بحالی کے لیے ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔
دوسری جانب شام کے پڑوسی ملک ترکی کے وزیر اعظم نے بھی شامی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ترک وزیر اعظم رجیب طیب ایردوآن شامی صدر بشار الاسد کے قریبی ساتھی شمار کیے جاتے ہیں تاہم انہوں نے بھی شامی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ماری جانی والی خواتین کے جسموں کی بے حرمتی کو سفاکی قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم ایردوآن کے بقول شامی سکیورٹی فورسز کا ظالمانہ کریک ڈاؤن ناقابل برداشت ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے لیے مداخلت کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
ترکی کے ساتھ ملحق شام کے سرحدی علاقے سے ہزاروں لوگ جان بچا کر ترکی چلے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی شامی تنظیموں کے مطابق حکومتی کریک ڈاؤن میں اب تک گیارہ سو سے زائد افراد مارے گئے ہیں۔ شامی حکومت اس خون خرابے کی ذمہ داری مسلح دہشت گردوں پر عائد کر رہی ہے۔ ریاستی ٹیلی وژن کی رپورٹوں کے مطابق یہ ’مسلح دہشت گرد‘ پولیس اور فوج کو ہلاک اور زخمی کر رہے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف توقیر