شام میں امریکی فضائی حملوں پر ایران کی مذمت
27 فروری 2021ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے جمعہ 26 فروری کو جو بیان جاری کیا گيا اس میں جمعرات 25 فروری کو شام میں ایرانی حمایت یافتہ جنگجؤں کے ٹھکانوں پر امریکی فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’غیر قانونی‘‘ قرار دیا گيا ہے۔
امریکا کے شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا پر فضائی حملے
'جوہری معاہدے پر ایران سے ملاقات کے لیے تیار ہیں' امریکا
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے اپنے ایک بیان میں اسے،''شام کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف واضح ''جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بتایا۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فضائی حملوں سے جنگ زدہ ملک میں جہاں تنازعہ مزید گہرا ہوگا وہیں خطے میں عدم استحکام میں بھی اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شام میں امریکا کے غیر قانونی فوجی اڈے ہیں جنہیں وہ دہشت گردوں کو تربیت دینے کے لیے استعمال کرتا ہے اور قدرتی وسائل پر گرفت حاصل کرنے کے لیے وہ ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
شام کی وزارت خارجہ نے بھی ان حملوں کو، ''امریکا کی بزدالانہ جارحیت‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق شام نے اسے نئی امریکی انتظامیہ کا 'غلط اشارہ بتایا۔
امریکا نے حملہ کیوں کیا؟
شام میں انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی تنظیم 'سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ نے جمعے کے روز بتایا تھا کہ جمعرات کو امریکی حملے میں ہلاک ہونے افراد کی تعداد 22 تک پہنچ گئی ہے۔ ہلاکتوں میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ حملے میں بعض جنگجو شدید زخمی ہوئے۔
اس تنظیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ حملے میں ایرانی حمایت یافتہ دو عراقی گروپوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ہی اس سمندری جہاز کو بھی نشانہ بنا یا گيا تھا جو عراق سے اسلحے کی ایک کھیپ لے کر شام جانے کی کوشش میں تھا۔
امریکا کا کہنا ہے کہ عراق میں امریکی فوجیوں اور اتحادیوں پر حالیہ راکٹ حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے صدر بائیڈن کے حکم پر یہ حملے کیے گئے تھے۔ پنٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ ان حملوں سے ایرانی حمایت یافتہ عراقی مسلح گروپوں بشمول کتائب حزب اللہ اور کتائب سید الشہدا کے زیر استعمال سرحدی کنٹرول پوائنٹ کو نشانہ بنایا گیا۔
گزشتہ دنوں عراق میں امریکی اور اس کی اتحادی افواج کے ٹھکانوں پر تین راکٹ حملے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اربیل میں بھی ایک فوجی کمپلیکس کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں ایک شہری اور اتحادی فوج کے ساتھ کام کرنے والا ایک غیرملکی کانٹریکٹر ہلاک ہوگیا تھا جب کہ ایک امریکی فوجی متعدد دیگر امریکی کانٹریکٹر زخمی بھی ہوئے تھے۔
امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ایران اور امریکا کے تعلقات خراب ہونے شروع ہوئے تھے جو گزشتہ برس ایک امریکی حملے میں جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد کشیدگی کی حد تک پہنچ گئے۔ بائیڈن کے اقتدار سنھالنے کے بعد سے بھی تعلقات تقریبا اسی موڑ پر ہیں۔
ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے بھی امریکا کو الگ کر لیا تھا اور اس پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ حالانکہ صدر بائیڈن نے اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے مین دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے تاہم ایران کا اصرار اس بات پر ہے کہ چونکہ امریکا نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہونے کا فیصلہ کیا تھا اس لیے اس پر بات چيت سے قبل اسے پہلے پابندیاں اٹھانے کی ضرورت ہے۔
(الیکس بیری) ص ز/ ع ت