شام میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بدستور جاری
13 دسمبر 2011بین الاقوامی برادری کی جانب سے شامی صدر بشار الاسد پر اس خونریزی کو روکنے کے لیے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں حزب اختلاف کی جانب سے دی جانے والی ہڑتال کی کال کا بھر پور ساتھ دیتے ہوئے عام تاجر کاروباری مراکز کو بند رکھے ہوئے ہیں اور بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھی نہیں بھیجا جا رہا۔
شام کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین کو بریفنگ دیتے ہوئے ناوی پلے نے کہا کہ دمشق حکومت کے مخالفین اور احتجاج کرنے والے مظاہرین پر فوجی دستوں کی پر تشدد کارروائیوں میں اب تک کم از کم تین سو بچے بھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد کو حکام نے حراست میں لے رکھا ہے۔
ناوی پلے نے اس موقع پر سلامتی کونسل کی جانب سے شام میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سخت نوٹس لیے جانے اور اس معاملے کے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے حوالے کیے جانے کی بھی سفارش کی۔اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر سوسن رائس نے بھی اس موقع پر سلامتی کونسل پر زور دیا کہ شام میں کشیدہ صورتحال کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔شامی صدر بشار الاسد نے عالمی دباؤ میں اضافے اور اس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین، عرب لیگ اور ترکی کی جانب سے عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے باوجود ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ حکومت سرکاری دستوں کی مظاہرین کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں کمی کا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔
اس صورتحال میں شامی تاجروں کی جانب سے ہڑتال کے باعث پہلے ہی سے کمزور معیشت مزید مشکلات سے دوچار ہو گئی ہے۔ موجودہ حالات میں اگر اقتصادی صورتحال مزید تباہی سے دوچار ہوتی ہے تو ملک میں صدر اسد کے حامیوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے، جہاں موجودہ حکومت کے خاتمے کے مطالبے روز بروز شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔
شام میں حکومت کے مخالفین کی مسلسل ہڑتال کی کامیابی کا اندازہ لگانا اس لیے مشکل ہے کہ حکومت نے ملک میں غیر ملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ساتھ ہی مقامی نامہ نگاروں کو بھی آزادانہ طور پر کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
حزب اختلاف نے ملک کے مختلف حصوں سے فوجی انخلاء اور حراست میں لیے گئے ہزاروں افراد کی رہائی تک اپنی ہڑتال جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ حمص کے ایک شہری نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ علاقے میں صرف بیکریاں، دوا خانے اور روزمرہ استعمال کی اشیاء فروخت کرنے والی دکانیں کھلی ہیں جبکہ باقی تمام کاروباری مراکز بند ہیں۔گزشتہ روز حمص کے علاقے سان میں حملہ آوروں نے مصر سے شام کو قدرتی گیس فراہم کرنے والی ایک پائپ لائن بھی تباہ کر دی تھی۔ اس حوالے سے ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ فوری طور پر حملہ آوروں کا پتہ نہیں لگایا جا سکا۔
ان کشیدہ حالات کے باوجود دمشق حکومت نے پیر کو ملک میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا تاہم مبصرین کے مطابق ووٹ ڈالنے والوں کی شرح نمایاں حد تک کم رہی۔ شام میں موجودہ حکومت مخالف تحریک کے آغاز پر صدر بشار الاسد نے ملک میں متعدد اصلاحات کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک ایسا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا گیا جبکہ حکومت کے مخالفین اب صرف یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کو ہر حال میں ختم ہونا چاہیے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر ان خونریز واقعات پر جلد قابو نہ پایا گیا تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے اور فرقہ ورانہ اختلافات بھی شدید ہو کر سامنے آ سکتے ہیں۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: مقبول ملک